سوال:
کیا نکاح میں عورت ولی بن سکتی ہے؟
جواب:
نکاح میں عورت ولی نہیں بن سکتی۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تنكح المرأة المرأة ولا تنكح المرأة نفسها إن التي تنكح نفسها هي البغي
عورت کسی اور کا یا اپنا نکاح نہیں کر سکتی، اپنا نکاح خود کرنے والی زانیہ ہے۔
سنن الدارقطني: 228/3، وسنده صحيح
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے:
لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسها والزانية هي التي تنكح نفسها بغير إذن وليها
کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے، نہ ہی اپنا نکاح خود کرے، جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح خود کرتی ہے، وہ زانیہ ہے۔
سنن الدارقطني: 3539، وسنده صحيح
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
فتح الباري: 187/9
امام ابن منذر رحمہ اللہ سے نقل ہے:
لا يعرف عن أحد من الصحابة خلاف ذلك
اس کے خلاف کسی صحابی سے کچھ ثابت نہیں۔
إتحاف المهرة: 566/15
فقہائے سبعہ فرماتے ہیں:
لا تعقد امرأة عقدة النكاح في نفسها ولا في غيرها
عورت اپنا یا کسی عورت کا نکاح نہیں کر سکتی۔
السنن الكبرى للبيهقي: 113/7، وسنده حسن
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا تنكح المرأة المرأة
کوئی عورت دوسری عورت کا نکاح نہیں کر سکتی۔
مصنف ابن أبي شيبة: 134/2/4، وسنده صحيح
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہونے کی دلیل قرآن و سنت میں بارہا مقامات پر موجود ہے، یہی صحابہ کی عادت تھی، مرد ہی عورتوں کا نکاح کرتے تھے، یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ (اس دور میں) کسی عورت نے اپنا نکاح خود کر لیا ہو، اسی بات سے نکاح اور ناجائز آشنائی والوں میں فرق ہوتا ہے۔
مجموع الفتاوى: 131/32
علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
إن النكاح لا يصح إلا بولي ولا تملك المرأة تزويج نفسها ولا غيرها ولا توكيل غير وليها في تزويجها فإن فعلت لم يصح النكاح
ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں، نہ ہی عورت اپنا یا کسی اور عورت کا نکاح کر سکتی ہے، نہ اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو اپنے نکاح کی ذمہ داری دے سکتی ہے، اگر ایسا کرے گی تو نکاح درست نہ ہوگا۔
المغني: 149/6
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: نکاح میں ولی کی جو شرط لگائی گئی ہے، اس میں ولیوں کی شان کو بلند کرتا ہے اور عورتوں کا نکاح کے ساتھ منفرد ہونا یہ ان کی رسوائی ہے، جس کا باعث قلتِ حیاء، مردوں پر برجستہ ہونا اور ان کی پروانہ کرنا ہے اور یہ بات بھی ہے کہ نکاح کو بدکاری سے تشہیر کے ساتھ جدا کیا جائے اور اس تشہیر میں سب سے زیادہ حق دار چیز ولیوں کا حاضر ہونا ہے۔
حجة الله البالغة: 127/2
اعتراض:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے کہ انہوں نے حفصہ بنت عبدالرحمن کا نکاح منذر بن زبیر سے کر دیا، جبکہ عبدالرحمن شام کے سفر پر تھے، جب وہ آئے تو کہنے لگے، کیا میرے جیسے شخص کے ساتھ یہ معاملہ کیا جاتا ہے؟ کیا میرے جیسے شخص کے مشورے کے بغیر کام کیا گیا ہے؟ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے منذر سے بات کی، منذر نے کہا: یہ کام عبدالرحمن کے بعد ہوا تھا، عبدالرحمن نے کہا: میں اس معاملے کو رد نہیں کر سکتا، جسے آپ نے طے کر دیا ہے، لہذا حفصہ، منذر کے ہاں ہی رہیں اور یہ طلاق نہ ہوئی۔
موطأ الإمام مالك: 555/2، السنن الكبرى للبيهقي: 112/7-113، وسنده صحيح
یہ معاملہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے اور مشورے سے طے پایا تھا، اس لیے نکاح کی نسبت ان کی طرف کر دی گئی ہے، ولی کوئی اور ہوگا، کیونکہ ایک عورت دوسری عورت کی ولی نہیں بن سکتی، اس میں اشارہ تک نہیں ملتا کہ یہ نکاح ولی کے بغیر ہوا تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حدیث میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود نکاح کیا تھا، احتمال ہے کہ مذکورہ لڑکی بیوہ ہو اور وہ ہم سر رشتے کے سپرد کر دی گئی اس حال میں کہ اس کا باپ غائب تھا، چنانچہ ولایت دور والے ولی یا حاکم وقت کی طرف منتقل ہوگئی۔
فتح الباري: 186/9
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نکاح کا بندوبست کیا تھا، جبکہ نکاح کا ولی وہ نہیں بنی تھیں، مگر (اس بندوبست کی وجہ سے) نکاح کی نسبت ان کی طرف کر دی گئی، کیونکہ وہ اس نکاح کے بندوبست میں شریک تھیں اور نکاح کا بندوبست کرنا یہ اس نکاح کے اسباب میں سے ہے، لہذا سبب بننے والے کی طرف نسبت ہو گئی۔
السنن الكبرى للبيهقي: 113/4
ثابت ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی روایت کے خلاف کچھ نہیں کیا، والحمد للہ!
تنبیہ:
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إنه أجاز نكاح امرأة بغير ولي أنكحتها أمها برضاها
آپ نے ایک عورت کا بغیر ولی کے نکاح جائز قرار دیا، اس کی ماں نے اس کی رضامندی سے نکاح کیا تھا۔
مصنف ابن أبي شيبة: 132/2/4، سنن سعيد بن منصور: 580
سند سخت ضعیف ہے۔ راوی مہم اور مجہول ہے۔ یہ قرآن و حدیث اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اپنے قول کے بھی خلاف ہے۔