سوال:
جبری طلاق کا کیا حکم ہے؟
جواب:
جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس پر قرآن و حدیث کے دلائل ہیں، نیز ائمہ کرام کی تصریحات بھی موجود ہیں:
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
﴿النحل: 106﴾
جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے (اس پر اللہ کا غضب ہے)، سوائے اس شخص کے جسے مجبور کر دیا جائے، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔
جس کے دل میں ایمان پختہ ہو، اس کو کفر پر مجبور کیا جائے تو وہ کافر نہیں ہوتا، اسی طرح طلاق کا ارادہ نہ ہو تو جبری طلاق بالکل واقع نہیں ہوگی۔
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الشرك اعظم من الطلاق
سنن سعید بن منصور: 1142، وسندہ صحیح
شرک طلاق سے بڑا معاملہ ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لما وضع الله عنه سقطت احكام الاكراه عن القول كله لان الاعظم اذا سقط عن الناس سقط ما هو اصغر منه
السنن الكبرى للبيهقي: 122/2
جب اللہ تعالیٰ نے انسان سے (مجبوری کی صورت میں) کفر معاف کر دیا ہے، تو مجبوری کی صورت میں کہے گئے تمام دیگر اقوال بھی معاف ہیں، کیونکہ جب لوگوں کو بڑی چیز معاف کر دی جائے تو چھوٹی چیز خود بخود معاف ہو جاتی ہے۔
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
خطا اور نسیان سے تجاوز کے بارے میں قرآن کریم نے صراحت کر دی ہے، اسی طرح مجبوری کی صورت میں کیے گئے کام سے معافی کے بارے میں قرآن کریم نے صراحت کی ہے۔
جامع العلوم والحكم، ص 452
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ليس لمكره ولا لمضطهد طلاق
سنن سعید بن منصور: 1143، وسندہ حسن
مجبور و مقہور کی کوئی طلاق نہیں۔
ثابت بن عیاض احنف رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
میں نے عبد الرحمن بن زید بن الخطاب کی ام ولد لونڈی سے نکاح کیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اس پر داخل ہوا، تو کوڑے لٹکے ہوئے تھے۔ لوہے کی دو بیڑیاں تھیں اور دو غلام بٹھائے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے کہا: اپنی بیوی کو طلاق دے دے، ورنہ اللہ کی قسم تجھے ایسا کردوں گی۔ میں نے کہا: اسے ایک ہزار طلاق۔ میں اس کے پاس سے نکلا، تو مکہ کے راستے میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کو اپنا سارا واقعہ سنایا، تو وہ غصے ہو گئے اور فرمایا: یہ کوئی طلاق نہیں۔ وہ عورت آپ پر حرام نہیں ہوئی۔ آپ اپنی بیوی کی طرف لوٹ جائیں۔ مجھے اطمینان نہ ہوا یہاں تک کہ میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اپنا واقعہ اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی فرمایا کہ آپ کی بیوی آپ پر حرام نہیں ہوئی، آپ اپنی بیوی کی طرف لوٹ جائیں۔
الموطأ للإمام مالك: 376، ح: 1245، وسندہ صحیح
ثابت ہوا کہ دو جلیل القدر صحابہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نزدیک جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ابوالزناد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
میں امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا۔ ان کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جو بنو حطمہ میں سے تھا، اسے قمری کہا جاتا تھا۔ اس کی قوم نے اسے مارا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے حتی کہ تو عورت کو تین طلاقیں دے یا ہم تجھے قتل کر دیں۔ اس نے دلیل پیش کی تو عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اس کی بیوی کو اس پر لوٹا دیا۔
سنن سعید بن منصور: 1132، وسندہ حسن
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
انه كان لا يرى طلاق المكره شيئا
سنن سعید بن منصور: 1141، وسندہ صحیح
وہ مجبور کی طلاق کو کچھ بھی خیال نہیں کرتے تھے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایسے انسان کے بارے میں فرماتے ہیں، جسے طلاق پر مجبور کیا گیا ہو:
ارجو ان لا يكون عليه شيء
مسائل أحمد وإسحاق برواية إسحاق بن منصور الكوسج: 958
امید ہے کہ اس پر کچھ نہیں ہوگا۔
نیز فرماتے ہیں:
مجبور کی تعریف یہ ہے کہ اسے قتل کا ڈر ہو یا سخت مار کا ڈر ہو۔
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے جس طرح فرمایا ہے، بلا شک و شبہ بات اسی طرح ہے۔
مسائل أحمد وإسحاق برواية إسحاق بن منصور الكوسج: 958
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ جبری طلاق کے مفاسد ذکر کرتے ہیں:
دوسری بات یہ ہے کہ اگر مجبور شخص کی طلاق کو معتبر سمجھ لیا جائے تو اس طرح مجبور کرنے کا دروازہ کھل جائے گا۔ قریب ہے کہ طاقتور شخص کمزور کو اس طرح سے قابو کر لے کہ لوگوں کو معلوم نہ ہو اور وہ اسے اسلحہ کے زور پر دھمکائے اور اس کی بیوی میں رغبت ہو تو اسے طلاق پر مجبور کر لے۔ اگر ہم اس کے ارادے کو ناکام بنا دیں اور اس کی مراد کو واپس کر دیں تو یہ چیز لوگوں کے آپس میں مجبور کر کے کیے گئے ظلم کو روکنے کا سبب ہوگی۔
حجة الله البالغة: 138/2
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (مجموع الفتاوی: 110/33) اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (زاد المعاد: 204/5، اعلام الموقعین: 3/108، تہذیب السنن: 187/6) وغیرہما کے نزدیک بھی جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ذهب الجمهور إلى عدم اعتبار ما يقع فيه
جمہور کا مذہب ہے کہ مجبوری میں جو چیز واقع ہوتی ہے، اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
(فتح الباری: 390/9)
❀ شیخ الاسلام علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
اس بنا پر مجبور شخص کی ہر کلام لغو ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ کوئی شخص اگر مجبور ہو کر کلمہ کفر کہہ دے تو وہ کافر نہیں ہوگا اور جسے اسلام پر مجبور کیا جائے، وہ مسلمان نہیں ہوگا۔ سنت نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجبور شخص کو معاف کر دیا ہے، وہ اس سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ رہے معبور شخص کے افعال تو ان میں تفصیل ہے: جو افعال مجبوری کے ساتھ مباح ہیں، ان پر معافی ہے، جیسا کہ رمضان کے دن میں کھانا، نماز میں حرکت اور احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا پہننا وغیرہ۔ اور جو چیزیں مجبوری کی وجہ سے مباح نہیں، ان پر مواخذہ ہوگا، جیسا کہ بے گناہ کو قتل کرنا، اس کا مال تلف کرنا۔ اقوال اور افعال میں فرق یہ ہے کہ افعال جب واقع ہو جائیں تو ان کی خرابی ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ ان کی خرابی ان کے ساتھ ہی رہتی ہے، برعکس اقوال کے کہ ان کو لغو کرنا اور سونے والے اور مجنون کی طرح شمار کرنا ممکن ہے۔ جو فعل مجبوری کے ساتھ مباح نہیں، اس کی خرابی ثابت ہوتی ہے، برعکس قول کی خرابی کے کہ وہ اسی وقت ثابت ہوتی ہے، جب کہنے والا اس کو جانتا ہو اور مجبور نہ ہو۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا تلاعب بالدين، ونعوذ بالله من ذلك
یہ (مجبور کی طلاق کو شمار کرنا) دین کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ ہم ایسے کاموں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
(المُحَلَّى بالآثار: 205/10)