سوال:
جان کے خوف سے جھوٹی قسم اٹھائی تو کیا حکم ہے؟
جواب:
جسے جان کا خوف ہو، وہ مجبور ہے اور مجبور کے کسی عمل پر مواخذہ نہیں۔
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ﴾ (النحل: 106)
”جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے (اس پر اللہ کا غضب ہے)، سوائے اس شخص کے جسے مجبور کر دیا جائے، جبکہ اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔“
جس کے دل میں ایمان پختہ ہو، اس کو کفر پر مجبور کیا جائے، تو وہ کافر نہیں ہوتا، اسی طرح جسے جھوٹی قسم یا گواہی پر مجبور کیا جائے، تو وہ بھی گناہ گار نہیں ہوتا۔
❀ امام شافعی رحمہ اللہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لما وضع الله عنه سقطت أحكام الإكراه عن القول كله، لأن الأعظم إذا سقط عن الناس سقط ما هو أصغر منه
”جب اللہ تعالیٰ نے انسان سے (مجبوری کی صورت میں) کفر معاف کر دیا ہے، تو مجبوری کی صورت میں کہے گئے تمام دیگر اقوال بھی معاف ہیں، کیونکہ جب لوگوں کو بڑی چیز معاف کر دی جائے تو چھوٹی چیز خود بخود معاف ہو جاتی ہے۔“
(السنن الكبرى للبيهقي: 122/2)
❀ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”خطا اور نسیان سے تجاوز کے بارے میں قرآن کریم نے صراحت کر دی ہے، اسی طرح مجبوری کی صورت میں کیے گئے کام سے معافی کے بارے میں قرآن کریم نے صراحت کی ہے۔“
(جامع العلوم والحكم، ص 452)