سوال:
کیا مدعی علیہ سے مدعی کی موجودگی میں قسم لینی چاہیے یا غیر موجودگی میں؟
جواب:
مدعی پر دلیل پیش کرنا لازم ہے، اگر اس کے پاس دلیل یا گواہ نہ ہوں، تو مدعی علیہ قسم دے کر بری ہو سکتا ہے اور یہ قسم مدعی کی موجودگی میں لینی چاہیے۔
❀ سیدنا اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے بیان کرتے ہیں:
”کندہ اور حضرموت سے ایک ایک آدمی اپنی یمن کی زمین کے متعلق مقدمہ لے کر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرمی کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس (کندی) کے والد نے میری زمین پر ناجائز قبضہ کر لیا تھا، آپ صلى الله عليه وسلم نے کندی سے فرمایا: آپ کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: میں یہ کہتا ہوں کہ زمین میرے قبضے میں ہے اور مجھے اپنے باپ سے ورثہ میں ملی ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرمی سے پوچھا: کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! دلیل تو نہیں ہے، لیکن یہ اس ذات کی قسم کھائے، جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ یہ نہیں جانتا یہ زمین میری ہے، اس کے والد نے مجھ سے زبردستی چھین لی تھی۔ کندی قسم کے لیے تیار ہوا، تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جو بھی (جھوٹی) قسم کے ذریعے کسی سے مال چھینتا ہے، وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملے گا، تو اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو گا۔ تو کندی نے زمین اسے واپس کر دی۔“
(مسند الإمام أحمد: 215/2، سنن أبي داود: 3622، السنن الكبرى للبيهقي: 180/10، وسنده حسن)
اسے امام ابن حبان رحمہ اللہ (5088) اور امام ابن الجارود رحمہ اللہ (1005) نے ”صحیح“، امام حاکم رحمہ اللہ (4/295) نے ”صحیح الإسناد “اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”صحیح “کہا ہے۔