سوال:
میاں بیوی میں طلاق ہوئی، ان کی چھوٹی بچی ہے، اس کی حضانت کا حق کسے حاصل ہوگا، جبکہ بچی کی ماں فاحشہ ہے؟
جواب:
ماں اور باپ میں سے حق حضانت ماں کو تب حاصل ہوگا، جب وہ بچے کی اچھی تربیت کی صلاحیت رکھتی ہو۔ مذکورہ صورت میں چونکہ ماں فاحشہ ہے، تو ایسی ماں کو بچی کی پرورش کا حق دینا خود بچی کے لیے نقصان دہ ہے، لہذا ضروری ہے کہ بچی کی پرورش کا حق اسے دیا جائے، جو اس کی اسلامی نہج پر تعلیم و تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر باپ یہ کر سکتا ہے، تو اسے یہ حق حاصل ہوگا، ورنہ خاندان کے جس فرد میں یہ صلاحیت موجود ہو، وہ ہی اس بچے کی حضانت کا حق دار ہے۔
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بچے کو اختیار دینا ثابت ہے۔ خلفائے راشدین اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی یہی ملتا ہے۔ صحابہ میں تو کوئی اس کا مخالف تھا نہ منکر۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ حد درجہ کا انصاف ہے، کیوں کہ عورت کو بچے کے بچپن کا خیال رکھ کر مقدم کر دیا گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس عمر میں بچے کو اٹھانے، دودھ پلانے، تربیت اور وہ دیکھ بھال، جسے صرف عورتیں ہی کر سکتی ہیں، کے لیے ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ ماں والدین میں ایک ہے، اسے والد پر مقدم کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جب بچہ ایسی عمر کو پہنچ جائے، جس میں خود کا خیال رکھ سکتا ہو، اٹھنے بیٹھنے میں کسی کا محتاج نہ ہو اور کسی عورت کی مدد کا ضرورت مند نہ رہے، تو ماں باپ کا حق برابر ہو جائے گا اور ماں کو مقدم کرنے والا سبب زائل ہو جائے گا۔ لہذا والدین کا حق برابر ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر مقدم کسی قرینے کی بنا پر کیا جائے گا۔ یہ قرینہ قرعہ کی صورت میں خارجی ہوگا یا بچے کو اختیار دینے کی صورت میں ہوگا۔ دونوں صورتیں سنت سے ثابت ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دونوں صورتیں جمع ہیں۔ ہم دونوں کو معتبر سمجھتے ہیں، کسی ایک کی وجہ سے دوسرے کو ٹھکراتے نہیں۔ اسے مقدم کرتے ہیں، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدم کیا۔ اسے مؤخر کرتے ہیں، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤخر کیا ہے۔ لہذا بچے کے اختیار کو مقدم کیا جائے گا، کیوں کہ قرعہ کی طرف تب التفات کیا جائے گا، جب تمام حقوق برابر ہوں اور اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہ ہو۔ یوں کیا جائے گا کہ بچے کو اختیار دے کر والدین میں سے کسی ایک کو مقدم کیا جائے گا۔ اگر بچہ کسی کو بھی اختیار نہ کرے یا دونوں کو اختیار کر لے، تو قرعہ اندازی کی جائے گی۔ جس مسئلہ میں سنت کا موافقت نہ ہو، اس میں قرعہ اندازی بہترین، انصاف پر مبنی اور تنازع کرنے والوں کی رضامندی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی پختہ صورت ہے۔ امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہما اللہ کے مذہب میں ایک اور صورت یہ ہے کہ اگر بچہ کسی کو بھی اختیار نہ کرے، تو بچہ بغیر کسی قرعہ کے ماں کے پاس ہی رہے گا، کیوں کہ "حضانہ” ماں کا حق ہے، جو صرف بچے کے اختیار سے ہی منتقل ہو سکتا ہے۔ اگر بچہ اختیار نہ کرے، تو ہر صورت ماں کے پاس ہی ہوگا۔“
(زاد المعاد في هدي خير العباد: 468/5)