سوال:
تین سالہ بچی کی والدہ فوت ہوگئی تو بلوغت تک اس کی پرورش نانی نے کی، تو کیا نانی بچی کے نکاح کی ولی بن سکتی ہے؟
جواب:
نکاح میں عورت کو حق ولایت حاصل نہیں، حتیٰ کہ ماں بھی اپنی بیٹی کی ولی نہیں بن سکتی، یہ حق صرف مردوں کا ہے۔
❀ فقہائے سبعہ فرماتے ہیں:
لا تعقد امرأة عقدة النكاح فى نفسها، ولا فى غيرها.
”عورت اپنا یا کسی عورت کا نکاح نہیں کر سکتی۔“
(السنن الكبرى للبيهقي: 113/7، وسنده حسن)
❀ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہونے کے متعلق لکھتے ہیں:
”اس کی دلیل قرآن و سنت میں بارہا مقامات پر موجود ہے، یہی صحابہ کی عادت تھی، مرد ہی عورتوں کا نکاح کرتے تھے، یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ (اس دور میں) کسی عورت نے اپنا نکاح خود کر لیا ہو، اسی بات سے نکاح اور ناجائز آشنائی والوں میں فرق ہوتا ہے۔“
(مجموع الفتاویٰ: 131/32)
❀ علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (620ھ) لکھتے ہیں:
إن النكاح لا يصح إلا بولي، ولا تملك المرأة تزويج نفسها ولا غيرها، ولا توكيل غير وليها فى تزويجها، فإن فعلت لم يصح النكاح.
”ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں، نہ ہی عورت اپنا یا کسی اور عورت کا نکاح کر سکتی ہے، نہ اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو اپنے نکاح کی ذمہ داری دے سکتی ہے، اگر ایسا کرے گی تو نکاح درست نہ ہوگا۔“
(المغني: 149/6)
❀ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”نکاح میں ولی کی جو شرط لگائی گئی ہے، وہ ولیوں کی شان کو بلند کرتی ہے اور عورتوں کا نکاح کے ساتھ منفرد ہونا ان کی رسوائی ہے، جس کا باعث قلت حیاء، مردوں پر برجستہ ہونا اور ان کی پروانہ کرنا ہے۔ یہ بات بھی ہے کہ نکاح کو بدکاری سے تشہیر کے ساتھ جدا کیا جائے اور اس تشہیر میں سب سے زیادہ حق دار چیز ولیوں کا حاضر ہونا ہے۔“
(حجة الله البالغة: 127/2)