ذمی رعایا کا نیا عبادت خانہ تعمیر کرنا: اسلامی فقہ کی روشنی میں حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 866

سوال:

کیا ذمی رعیت نیا عبادت خانہ تعمیر کر سکتی ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی فقہاء اور ائمہ کرام نے اہلِ ذمہ (غیر مسلم رعایا) کے بارے میں واضح کیا ہے کہ انہیں مسلم ممالک یا دارالاسلام میں نئے عبادت خانے، گرجے یا صومعے بنانے کی اجازت نہیں۔ اس مسئلے میں مختلف ائمہ و فقہاء کی تصریحات ذیل میں درج ہیں۔

1. قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کی تصریح:

فرماتے ہیں:

"ويمنعوا من أن يحدثوا بناء بيعة أو كنيسة في المدينة إلا ما كانوا صولحوا عليه وصاروا ذمة وهي بيعة لهم أو كنيسة فما كان كذلك تركت لهم ولم تهدم.”
(کتاب الخراج لابی یوسف: ص 127)

ترجمہ:
عیسائیوں کو نیا صومعہ یا گرجا تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ البتہ جو گرجے معاہدے کے وقت موجود ہوں، انہیں برقرار رکھا جائے گا اور منہدم نہیں کیا جائے گا۔

مزید فرمایا:

"وما احدث من بناء بيعة او كنيسة فان ذالك يهدم.”
(کتاب الخراج لابی یوسف: ص 159)

ترجمہ:
جو نیا گرجا یا بیعہ تعمیر کیا جائے، وہ گرایا جائے گا۔

2. امام ابوالحسن علی بن محمد الماوردی رحمہ اللہ (م 450ھ):

"لايجوز ان يحدثوا فى دار السلام بيعة ولاكنيسة فان احدثوها هدمت عليهم.”
(الاحكام السلطانية: ص 146)

ترجمہ:
اہلِ ذمہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دارالسلام میں نیا بیعہ یا کنیسہ تعمیر کریں، اور اگر بنائیں تو اسے منہدم کر دیا جائے گا۔

3. امام ابو زکریا محی الدین یحییٰ بن شرف النووی الشافعی رحمہ اللہ (م 676ھ):

"ويمنعون من احداث الكنائس والبيع والصوامع في بلاد المسلمين لما روي عن ابن عباس رضي الله عنه أنه قال: (أيما مصر مصرته العرب فليس للعجم أن يبنوا فيه كنيسة).”
(شرح المھذب، ج 19، ص 412، طبع دارالفکر)

ترجمہ:
مسلمانوں کے شہروں میں ذمیوں کو گرجے، بیعے اور صومعے تعمیر کرنے کی اجازت نہیں، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"جس شہر کو عرب (مسلمانوں) نے آباد کیا ہو، وہاں غیر عرب (عجم) کے لیے گرجا بنانے کی اجازت نہیں۔”

4. قاضی ابو یعلیٰ حنبلی رحمہ اللہ (م 458ھ):

"لايجوز ان يحدثوا فى دار السلام بيعة ولاكنيسة فان احدثوها هدمت عليهم.”
(الاحكام السلطانية: ص 146)

ترجمہ اس سے قبل بیان ہو چکا ہے۔

5. امام محمد بن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی تصریح:

"لا نحدث في مدينتنا كنيسة ولا فيما حولها ديرا ولا قلاية ولا صومعة راهب ولا نجدد ما خرب من كنائسنا ولا ما كان منها في خطط المسلمين، وأن لا نمنع كنائسنا من المسلمين أن ينزلوها في الليل والنهار، وأن نوسع أبوابها للمارة وابن السبيل، ولا نؤوي فيها ولا في منازلنا جاسوسا.”
(المغنی لابن قدامة، ج 9، ص 282)

ترجمہ:
جزیرہ کے عیسائیوں نے حضرت عبدالرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ سے جو معاہدہ کیا، اس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ:
ہم اپنے شہر یا اس کے گرد نئے گرجے، دیر، قلاۓ یا صومعے تعمیر نہیں کریں گے۔
گرے ہوئے گرجوں کو دوبارہ تعمیر نہیں کریں گے۔
مسلم علاقوں میں موجود گرجا گھروں کی بھی تجدید نہیں کریں گے۔
ہم اپنے گرجوں کو مسلمانوں، مسافروں اور راہگیروں کے لیے ہر وقت کھلا رکھیں گے، اور ان میں یا اپنے گھروں میں کسی جاسوس کو پناہ نہیں دیں گے۔

6. امام ابن قیم رحمہ اللہ کی وضاحت:

"ان شرطنا لك على انفسنا ان لا نحدث في مدينتنا كنيسة ولا فيما حولها ديرا ولا قلاية ولا صومعة راهب ولا نجدد ما خرب من كنائسنا.”
(حقوق اھل الذمة، ج 2، ص 259، 660، تحقیق: ڈاکٹر صبیحی صالح، طبع دمشق)

ترجمہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عامل حضرت عبدالرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ کے ساتھ جزیرہ کے عیسائیوں کے معاہدے میں بھی یہی شرط شامل تھی کہ وہ اپنے علاقوں میں کوئی نیا گرجا، دیر، قلا یا صومعہ تعمیر نہیں کریں گے اور جو گرجے گر جائیں، ان کی تجدید نہیں کریں گے۔

حاصلِ کلام:

ان تمام ائمہ کرام اور فقہی ماہرین کے اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ:

اسلامی شریعت کے مطابق، اہلِ ذمہ (عیسائی و یہودی) کو مسلم ممالک یا دارالسلام میں نئے گرجے یا عبادت خانے بنانے کی اجازت نہیں۔
✿ جو گرجے یا عبادت خانے پہلے سے موجود ہوں، ان کی تجدید یا مرمت بھی جائز نہیں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق:

"لما روى كثير بن مرة قال سمعت صلى الله عليه وسلم لا تبنى الكنيسة فى دار السلام ولا يجدد ما خرب منها.”
(شرح المهذب، ج 19، ص 413)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"دارالسلام میں گرجا تعمیر نہیں کیا جائے گا، اور جو گر جائے، اس کی تجدید بھی جائز نہیں۔”

نتیجہ:

جب اہلِ کتاب (عیسائی و یہودی) کو دارالسلام میں گرجے یا صومعے تعمیر کرنے کی اجازت نہیں، تو قادیانی مرتدین یا کفار کو کس طرح اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ملک میں عبادت خانہ "مسجد” کے نام سے بنائیں یا اپنے مذہبی مراکز کو مسجد کہلائیں؟

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے