سوال
موجودہ دور کے یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے یا نہیں؟ کیا ہم مسلمان ان کا گوشت کھا سکتے ہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی شریعت کے مطابق غیر مسلم گروہوں کو دو طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے:
➊ اہلِ کتاب
➋ عام غیر مسلم
اہلِ کتاب کون ہیں؟
اہلِ کتاب وہ لوگ ہیں جو:
✿ وجودِ خدا، رسالت، وحی اور الہام کے قائل ہوں۔
✿ کسی ایسے نبی اور اس کی کتاب پر ایمان رکھتے ہوں جس کی نبوت کی تصدیق خود اسلام نے کی ہو۔
دنیا میں اس تعریف کے مطابق صرف دو قومیں اہلِ کتاب کہلاتی ہیں:
➊ یہودی — جو حضرت موسیٰؑ پر ایمان رکھتے ہیں اور تورات کو کتابِ الٰہی مانتے ہیں۔
➋ عیسائی — جو حضرت عیسیٰؑ کی رسالت کے قائل ہیں اور انجیل کو الہامی کتاب تسلیم کرتے ہیں۔
یہ دونوں ایسی شخصیات ہیں جنہیں قرآنِ مجید نے نبی ہونے کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔
اسی لیے ان کے ماننے والوں کو اہلِ کتاب کہا گیا ہے، چاہے وہ حضرت عیسیٰؑ کو ابنُ اللہ (اللہ کا بیٹا) کیوں نہ مانیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق نرمی اور رخصت دی ہے، باوجود اس کے کہ ان کے عقائد میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ہے۔
قرآنِ مجید سے دلیل
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ…﴿٥﴾…المائدة﴾
ترجمہ:
"آج تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور اہلِ کتاب کا کھانا (ذبیحہ) تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے۔”
یہاں طعام سے بالاجماع مراد ذبیحہ ہے۔
مفسرین و تابعین کی آراء
حضرت ابنِ عباسؓ، ابو امامہ، مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ، عطا، حسن بصری، مکحول، ابراہیم نخعی اور دیگر تابعین مثلاً سدی، مقاتل بن حیان نے
وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ سے ذبیحہ ہی مراد لیا ہے۔
اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے،
کیونکہ وہ غیراللہ کے نام پر ذبح کو حرام سمجھتے ہیں اور ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لیتے ہیں۔
اگرچہ ان کے عقائد میں اللہ تعالیٰ کے متعلق باطل نظریات پائے جاتے ہیں،
پھر بھی وہ ذبیحہ کے وقت اللہ کا نام لیتے ہیں۔
امام ابنِ کثیرؒ نے فرمایا:
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُو أُمَامَةَ وَمُجَاهِدٌ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَعِكْرِمَةُ وَعَطَاءٌ وَالْحَسَنُ، وَمَكْحُولٌ وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، والسُّدِّيُّ وَمُقَاتِلُ بْنُ حَيَّانَ: يَعْنِي ذَبَائِحَهُمْ، وَهَذَا أَمْرٌ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ، أَنَّ ذَبَائِحَهُمْ حَلَالٌ لِلْمُسْلِمِينَ، لِأَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ تَحْرِيمَ الذَّبْحِ لِغَيْرِ اللَّهِ، وَلَا يَذْكُرُونَ عَلَى ذَبَائِحِهِمْ إِلَّا اسْمَ اللَّهِ، وَإِنِ اعْتَقَدُوا فِيهِ تعالى ما هو منزه عنه تَقَدَّسَ وَتَعَالَى.
(تفسیر ابن کثیر، ج2، ص22)
اہلِ کتاب کی تعریف کا دائرہ
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہوا کہ یہاں اہلِ کتاب سے مراد وہ یہود و نصاریٰ ہیں جن کے آباء و اجداد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھے۔
✿ پاکستان کے قیام کے وقت جو چوہڑے ظاہری طور پر مسیحی بن گئے، وہ اہلِ کتاب نہیں ہیں۔
✿ اسی طرح کوئی مسلمان اگر بعد میں عیسائیت قبول کرے، تو وہ اہلِ کتاب نہیں بلکہ مرتد اور واجب القتل ہے۔
لہٰذا، نسلاً در نسل چلے آنے والے یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ ہی حلال قرار پاتا ہے۔
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہونے کی تین شرطیں
➊ اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو۔
یعنی وہی طریقہ اپنایا گیا ہو جو اسلام نے بیان کیا ہے۔
➋ اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
اگر ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا جائے یا کسی اور کا (مثلاً حضرت مسیحؑ کا) نام لیا جائے تو وہ حرام ہے۔
(الفقه على المذاهب الأربعة، ج1، ص726)
➌ ذبیحہ کرنے والا حقیقی اہلِ کتاب ہو۔
یعنی وہ شخص واقعی وحی، رسالت، اور خدا پر ایمان رکھتا ہو۔
جو لوگ اللہ، رسالت اور مذہب کے منکر ہیں، اگرچہ وہ خود کو یہودی یا عیسائی کہتے ہوں،
وہ حقیقت میں اہلِ کتاب نہیں اور ان کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال نہیں۔
موجودہ یورپ کے اہلِ کتاب کی حقیقت
آج یورپ میں جو لوگ خود کو عیسائی یا یہودی کہتے ہیں،
ان میں اکثریت دراصل ملحد (Atheist) اور دہریہ (Secularist) ہے۔
✿ وہ مذہب، وحی اور رسالت کے منکر ہیں۔
✿ وہ ان عقائد کا مذاق اڑاتے ہیں۔
✿ ان کے ہاں ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا عام طور پر ترک کر دیا گیا ہے۔
لہٰذا ایسے لوگوں کا ذبیحہ اسلامی معیار کے مطابق حلال نہیں۔
خلاصہ
✿ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) کا ذبیحہ اسی صورت میں حلال ہے جب:
➊ اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو۔
➋ اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
➌ ذبح کرنے والا واقعی اہلِ کتاب ہو۔
اگر کسی یہودی یا عیسائی نے واضح طور پر کہا کہ اس نے اللہ کا نام لے کر شرعی طریقے سے ذبح کیا ہے،
اور اس کی تردید کی کوئی واضح وجہ نہ ہو تو اس کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔
ورنہ احتیاطاً اجتناب کرنا بہتر ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب