دو طلاق کے بعد عدت میں رجوع کا شرعی حکم — فتاویٰ محمدیہ کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 850

سوال

کیا ارشاد فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیانِ دین اس مسئلے میں کہ موصوف مقر نے تقریباً دو ماہ قبل ایک خانگی جھگڑے کے باعث غصے میں آکر اپنی بیوی کو اکٹھی دو طلاقیں دے دی تھیں۔
مگر اگلے دن انہوں نے اپنے سسرال اور بیوی کے سامنے یہ طلاق واپس لے لی، یعنی انہوں نے کہا:

"میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔”

اب سوال یہ ہے کہ:
کیا شریعت کی روشنی میں یہ رجوع صحیح طور پر واقع ہو گیا ہے یا نہیں؟
کیا میں اپنی بیوی کو واپس اپنے گھر لا سکتا ہوں؟
برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعی فتویٰ عطا فرمائیں۔

نوٹ:
میں نے اس سے پہلے کبھی کوئی تحریری یا زبانی طلاق اپنی بیوی کو نہیں دی۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرطِ صحتِ سوال، مذکورہ صورتِ حال میں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔
رجعی طلاق کی عدت تین حیض، یا تین ماہ، یا حمل کی صورت میں وضعِ حمل تک ہوتی ہے۔

چونکہ سوال میں وضاحت کے مطابق، طلاق دہندہ اصغر علی نے طلاق کے دوسرے دن طلاق واپس لے لی،
لہٰذا یہ رجوع عدت کے اندر ہوا ہے۔
اسی وجہ سے نکاح بدستور قائم اور بحال ہے،
اور طلاق دہندہ کے رجوع پر کسی قسم کا اختلاف نہیں،
جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

قرآنی دلیل

﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ﴾
(البقرة: 228)

ترجمہ:
"اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں،
انہیں حلال نہیں کہ وہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہے اسے چھپائیں،
اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔
ان کے شوہر اس مدت میں انہیں واپس لینے کے زیادہ حقدار ہیں،
اگر وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں۔”

وضاحت

اس آیتِ کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ عدت کے دوران شوہر کو اپنی بیوی کو واپس لینے (رجوع کرنے) کا مکمل شرعی حق حاصل ہے۔
اس موقع پر بیوی یا سسرال کو شرعاً انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

کیونکہ لفظ "أحق” (زیادہ حقدار) اسمِ تفضیل کا صیغہ ہے جو شوہر کے حق میں استعمال ہوا ہے،
یعنی شریعت نے عدت کے اندر رجوع کا حق شوہر کو زیادہ مؤکد طور پر عطا کیا ہے۔

خلاصہ و فیصلہ

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں:
طلاق دہندہ اصغر علی ولد غلام نبی اپنی مطلقہ بیوی عصمت بی بی دختر محمد نواز کو اپنے گھر آباد کر سکتا ہے،
کیونکہ اس نے رجوع عدت کے اندر کیا ہے۔

یہ فتویٰ بشرطِ صحتِ سوال تحریر کیا گیا ہے۔
اگر سوال میں غلط بیانی کی گئی ہو تو اس کی ذمہ داری سائل پر عائد ہوگی،
اور ایسی صورت میں یہ فتویٰ قابلِ عمل نہیں رہے گا۔

مزید یہ کہ مفتی کسی قسم کی قانونی پیچیدگی یا عدالتی کارروائی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے