یک طرفہ خلع کا حکم اور دوبارہ نکاح کی شرعی حیثیت
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ جلد 1، صفحہ 847

سوال

ہماری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ دو سال بعد گھریلو ناچاقی کی وجہ سے میری بیوی اپنے میکے چلی گئی۔ اس کے بعد اس کے گھر والوں نے عدالت سے رجوع کیا، لیکن مجھے اس مقدمے کے سلسلے میں کوئی نوٹس یا سمن موصول نہیں ہوا۔ میں نے نہ تو زبانی اور نہ ہی تحریری طور پر طلاق دی۔ عدالت نے یک طرفہ کارروائی کر کے خلع کا فیصلہ جاری کر دیا۔

اب چھ سال گزرنے کے بعد میری بیوی دوبارہ واپس آنا چاہتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اب میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں یا ہمیں دوبارہ نکاح (نکاحِ ثانی) کرنا ہوگا؟ براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحتِ سوال، اگر واقعی احسان الحق نامی شوہر نے اپنی بیوی کو نہ تو تحریری اور نہ ہی زبانی طلاق دی، اور نہ ہی عدالت یا اس کے کسی رشتہ دار کو خلع کے مقدمے کا کوئی نوٹس یا سمن ملا، بلکہ عدالت نے اس کی مکمل لاعلمی میں یک طرفہ خلع کا فیصلہ دیا، تو شرعی لحاظ سے یہ خلع درست نہیں۔

کیونکہ شرعی خلع کی وہی صورت معتبر ہے جس میں بیوی اپنے شوہر کو مہر یا دیگر مالی عوض واپس کر کے نکاح کے بندھن سے آزادی حاصل کرے۔ یہی تعریف فقہاء اور علماء نے بیان کی ہے۔

خلع کی شرعی تعریفات

السید محمد سابق المصری فرماتے ہیں:

سُمي الفداء لأن المرأة تفتدي نفسها بما تبذله لزوجها.
(فقه السنة، ج2، ص 253)

"خلع کو ’افتداء‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ عورت اپنی آزادی کے بدلے شوہر کو مہر وغیرہ واپس کر کے خود کو نکاح کے قید سے آزاد کرتی ہے۔ یعنی یہ مال کے عوض حاصل کی جانے والی گلو خلاصی ہے۔”

الشیخ ابوبکر الجزائری لکھتے ہیں:

الخلع وهو أن تكره المرأة البقاء مع زوجها فتخلع نفسها منه بمال تعطيه اياه عوضها عما انفق عليها فى الزواج بها.
(تفسير ايسر التفاسير، ج1، ص 215)

"جب عورت اپنے شوہر کے ساتھ بطورِ بیوی رہنا پسند نہ کرے، تو وہ شوہر سے علیحدگی اختیار کرتی ہے اور نکاح کے اخراجات کے بدلے میں مال دیتی ہے۔ اس عمل کو خلع کہا جاتا ہے۔”

عنایہ شرحِ ہدایہ میں ہے:

هو فى الشريعة عبارة عن اخذ مال المرأة بازاء ملك النكاح بلفظ الخلع.
(حاشیہ ہدایہ: باب الخلع، ج2، ص 404)

"شریعت میں خلع اس کو کہتے ہیں کہ شوہر لفظِ خلع کے ساتھ نکاح کے بدلے عورت سے مال لے کر اسے اپنے عقدِ نکاح سے آزاد کر دے۔”

فقہاء کے نزدیک:

فراق الرجل زوجته ببدل يحصل له.
(فقه السنة، ج2، ص 253)

"جب شوہر اپنی بیوی سے کسی مالی عوض کے بدلے علیحدگی اختیار کرے تو اسے خلع کہا جاتا ہے۔”

ابوالیولیس یسوعی لکھتے ہیں:

خلع امرأته، مال کے عوض عورت کو طلاق دینا۔
(منجد، خلع، ص 291)

منہاج المسلم میں درج ہے:

"اگر عورت کسی وجہ سے اپنے شوہر کو پسند نہ کرے اور مہر وغیرہ واپس کر کے اس سے علیحدگی حاصل کرے، تو اسے خلع کہا جاتا ہے۔”
(ص 646)

نتیجہ تعریفات کا

ان تمام تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ شرعی خلع کے لیے عورت کا مہر یا دیا ہوا مال واپس کرنا بنیادی شرط ہے۔ اگر عورت نے شوہر کو کوئی مالی عوض ادا نہیں کیا تو خلع شرعاً معتبر نہیں ہوتا۔

سید سابق المصری فرماتے ہیں:

الخلع – كما سبق – إزالة ملك النكاح في مقابل مال. فالعوض جزء أساسي من مفهوم الخلع. فإذا لما يتحقق العوض لا يتحقق الخلع.
(فقه السنة، ج2، ص 254)

"جیسا کہ پہلے بیان ہوا، خلع نکاح کے بندھن کو مالی عوض کے بدلے ختم کرنے کا نام ہے۔ لہٰذا اگر عوض موجود نہ ہو تو خلع بھی متحقق نہیں ہوتا۔”

صورتِ مسئولہ کا شرعی حکم

اس اصول کے مطابق، جب عدالت نے یک طرفہ طور پر خلع کا فیصلہ دیا اور شوہر احسان الحق کو نہ کوئی اطلاع ملی، نہ ہی اس سے خلع کے بدلے کوئی مالی عوض لیا گیا، تو یہ خلع شرعاً درست نہیں ہے۔
لہٰذا نکاح بدستور قائم اور بحال ہے۔

تاہم احتیاطاً

افضل یہ ہے کہ عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے، شرعی طریقے سے نیا نکاح کر لیا جائے۔

یعنی:
✿ دو گواہوں کی موجودگی میں
✿ ولی کی اجازت سے
✿ نیا مہر مقرر کر کے

نکاح پڑھ لیا جائے۔

کیونکہ خلع کے بعد رجوع کا حق ختم ہو جاتا ہے، اور عورت اپنے شوہر کے عقد سے آزاد ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر عورت راضی ہو، تو وہ اپنے سابق شوہر سے نیا نکاح کر سکتی ہے۔

يجوز للزوج ان يتزوجها برضاها فى عدتها ويعقد عليها عقدا جديدا.
(فقه السنة، ج2، ص 258؛ ومنها مسلم از شيخ ابوبكر جابر الجزائرى، ص 467)

خلاصہ

بشرط صحتِ سوال، چونکہ خلع یک طرفہ تھا اور بغیر عوض کے عمل میں آیا، اس لیے شرعاً خلع واقع نہیں ہوا۔
نکاح اب بھی قائم ہے، مگر احتیاطاً عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے نئے مہر، نئے گواہوں اور ولی کی اجازت کے ساتھ نیا نکاح کر لینا بہتر ہے۔

نوٹ:
مفتی صاحب کسی قانونی نقص یا عدالتی کارروائی کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے