سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرح متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:
میں، مسمیٰ صوفی افتخار احمد ولد صوفی غلام محمد ساکن اکرم منزل، فلیٹ نمبر 8، جمیلہ اسٹریٹ، نزد ہوتی مارکیٹ، کراچی نے اپنی زوجہ مسمات طیبہ بنت صوفی غلام محمد ساکن شیرانوالہ گیٹ، نیا محلہ، مکان نمبر 1229-G، لاہور کو 25 اپریل 1991ء کو ایک مجلس میں ایک طلاق دی تھی۔
اب ہم اپنے کیے پر پریشان ہیں اور اولاد و برادری کے الجھے ہوئے مسائل کے پیش نظر مصالحت پر آمادہ ہیں۔
لہٰذا کتاب و سنت کی روشنی میں فرمائیں:
کیا ہم رجوع کر کے اپنا گھر دوبارہ آباد کر سکتے ہیں یا نہیں؟
شرعی فتویٰ صادر فرمائیں۔
یاد رہے کہ میں نے اس سے قبل بھی اپنی زوجہ مذکورہ کو چھ ماہ پہلے ایک طلاق دی تھی — یہ دوسرا موقع ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرطِ صحتِ سوال اور بشرطِ صحتِ واقعہ، صورتِ مسئولہ میں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔
اور طلاقِ رجعی میں بالاجماع علمائے امت کے نزدیک عدت کے اندر رجوع کر کے گھر آباد رکھنا شرعاً جائز ہے۔
اور عدت کے بعد (یعنی تین حیض، یا تین ماہ، یا وضعِ حمل کے بعد) نکاحِ جدید بھی بالاجماع جائز ہے۔
چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ… ﴿٢٢٩﴾…البقرة
“یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا۔”
تفسیرِ ابنِ کثیر رحمہ اللہ
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں:
الطَّلاقُ مَرَّتانِ ۖ فَإِمساكٌ بِمَعروفٍ أَو تَسريحٌ بِإِحسانٍ- اى اذا طلقتها واحدة او اثنتين فانت فخير فيها ما دامت عدتها باقية بين ان تردها اليك ناويا الاصلاح بها والاحسان اليها وبين ان تتركها حتى تنقضي عدتها تبين منك- الخ.
(تفسير ابن كثير، ج 1، ص 272)
یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دو تو عدت کے اندر تمہیں اختیار حاصل ہے کہ تم اپنی مطلقہ رجعیہ سے نیک نیتی اور اصلاح کی نیت سے رجوع کر کے گھر آباد کر لو، یا پھر اسے عدت گزرنے دو تاکہ وہ تم سے جدا ہو جائے۔
تفسیرِ فتح القدیر – امام شوکانی رحمہ اللہ
علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
المراد بالطلاق المذكور هو الرجعي بدليل ما تقدم من الآية الأولى، أي الطلاق الذي تثبت فيه الرجعة للأزواج هو مرتان، أي الطلقة الأولى والثانية، إذ لا رجعة بعد الثالثة، وإنما قال سبحانه مرتان ولم يقل طلقتان إشارة إلى أنه ينبغي أن يكون الطلاق مرة بعد مرة لا طلقتان دفعة واحدة. كذا قال جماعة من المفسرين.
(تفسير فتح القدير، ج 1، ص 238)
یعنی اس آیت میں رجعی طلاق (قابلِ رجوع طلاق) کا حکم بیان کیا گیا ہے۔
وہ طلاق جس میں شوہروں کے لیے رجوع کرنا شرعاً ثابت ہے، دو طلاقیں ہیں — پہلی اور دوسری — کیونکہ تیسری طلاق کے بعد رجوع ممکن نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے "مرتان” فرما کر اس جانب اشارہ کیا کہ طلاق الگ الگ موقعوں پر دی جائے، اکٹھی دو طلاقیں مراد نہیں، ورنہ لفظ "طلقتان” استعمال کیا جاتا۔
مزید بیان فرمایا:
وأخرج البيهقي من طريق السدي عن ابن عباس وابن مسعود وناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وآله وسلم في قوله : الطلاق مرتان قالوا : وهو الميقات الذي تكون فيه الرجعة ، فإذا طلق واحدة أو اثنتين ، فإما أن يمسك ويراجع بمعروف ، وإما أن يسكت عنها حتى تنقضي عدتها فتكون أحق بنفسها.
(فتح القدير، ج 1، ص 240)
یعنی حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود اور دیگر صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رجوع کا وقت مقرر فرمایا ہے۔
پس جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے گا تو عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کا حق رکھتا ہے۔
تفسیر جامع البیان – الشیخ معین الدین محمد بن عبدالرحمن
الشیخ معین الدین محمد بن عبدالرحمن فرماتے ہیں:
فامساك بمعروف اى اذا طلقتها واحدة او اثنتين فلك الخيار فى المراجعة وحسن المعاشرة.
(تفسير جامع البيان، آيت 229، ص 56)
یعنی "فامساک بمعروف” کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دو، تو تمہیں اختیار حاصل ہے کہ رجوع کر کے خوش اخلاقی اور حسنِ معاشرت سے گھر آباد کر لو۔
نتیجہ و شرعی حکم
مندرجہ بالا آیات اور مفسرینِ کرام کی تصریحات کے مطابق صورتِ مسئولہ میں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔
سوال نامہ کے مطابق، صوفی افتخار احمد نے اپنی زوجہ کو چھ ماہ قبل بھی ایک طلاق دی تھی اور اس سے رجوع کر لیا تھا۔
لہٰذا اب دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔
چونکہ دوسری طلاق 25 اپریل 1991ء کو دی گئی تھی، اور آج 17 جولائی 1991ء ہے، یعنی 84 دن گزر چکے ہیں۔
اور چونکہ مسمات طیبہ بنت غلام محمد "واللائی یئیسن من المحیض” (یعنی وہ عورتیں جنہیں حیض آنا بند ہو چکا ہے) کے زمرے میں آ چکی ہیں،
اس لیے ان کی عدت تین حیض کے بجائے تین ماہ مقرر ہے۔
پس ابھی عدت مکمل نہیں ہوئی — 84 دن گزرے ہیں، 90 دن مکمل ہونا باقی ہیں۔
لہٰذا ابھی نکاح سابق بحال ہے اور رجوع شرعاً جائز ہے۔
ایسے معاملے میں کسی حلالہ کی ضرورت نہیں۔
اس مسئلے میں علمائے امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
مفتی صاحب کسی قانونی یا عدالتی پیچیدگی کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب