زبانی طلاق کے وقوع کا شرعی حکم – فتاویٰ محمدیہ کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص842

سوال

مسمی نور صمند ولد نواب قوم بھٹی، ساکن گوٹھ حاجی شاہ ارائیں، تحصیل مورا، ضلع نواب شاہ عرض کرتے ہیں کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا ہے۔

میری حقیقی دختر مسمات معراج بی بی کی شادی تقریباً ایک سال قبل محمد علی ولد انور قوم بھٹی، ساکن گوٹھ حاجی شاہ محمد آرائیں، تحصیل مورا، ضلع نواب شاہ سے ہوئی تھی۔ مسمات معراج بی بی نے اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً تین ماہ تک رہ کر حق زوجیت ادا کیا۔

دورانِ ازدواجی زندگی فریقین میں ناچاقی پیدا ہوگئی، کیونکہ شوہر محمد علی آوارہ مزاج، نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والا اور بیوی کو اکثر مارتا پیٹتا تھا۔ معراج بی بی اپنے شوہر کے گھر نہایت تنگدستی اور اذیت میں وقت گزارتی رہی۔

بالآخر محمد علی نے گواہوں کے روبرو مسمات معراج بی بی کو تین بار زبانی طلاق دیتے ہوئے کہا کہ

> “تو مجھ پر حرام ہے”

اور اسے اپنے گھر سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا۔ اس واقعے کو تقریباً 9 ماہ گزر چکے ہیں، اور اب تک رجوع نہیں کیا گیا۔ اگرچہ صلح کی کوشش کی گئی، مگر کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ وجوہات کی بنا پر شوہر کی طرف سے شرعاً طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں؟
شرعی جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔ کذب بیانی کی صورت میں سائل خود ذمہ دار ہوگا۔

تصدیق کنندگان

ہم اس سوال کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں کہ یہ بالکل درست اور سچائی پر مبنی ہے، اور اگر یہ غلط ثابت ہو تو ہم خود اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ہمیں شرعی فتویٰ دیا جائے۔

➊ مولوی نور محمد ولد سلیمان قوم بھٹی، موضع جان گوٹھ
➋ غلام قادر ولد سلیمان قوم بھٹی، ٹھٹھ مقدر کا، تحصیل و ضلع اوکاڑہ

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورتِ مسؤلہ میں، بشرطِ صحتِ سوال و واقعہ واضح ہو کہ جس طرح تحریری طلاق شرعاً واقع ہو جاتی ہے، بعینہٖ زبانی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے۔

اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ ابتدائے اسلام سے نکاح و طلاق زبانی الفاظ سے انجام پاتے آئے ہیں، کیوں کہ عرب لوگ عموماً لکھنے پڑھنے سے ناواقف تھے۔

حضرت ابن عمرؓ کی درج ذیل حدیث اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہے:

> ابن عمر رضي الله عنهما، ‘ عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: (انا امة امية، لا نكتب ولا نحسب)
باب قول النبی لانکتب ولانحسب۔
(صحيح البخاري ج1، ص252)

یعنی:
“ہم ایک ناخواندہ امت ہیں، ہم نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا۔”

لہٰذا اسلام کے ابتدائی زمانے سے زبانی نکاح و طلاق کا رواج چلا آ رہا ہے۔

دلیلِ زبانی و تحریری طلاق

> عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:
"إن الله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تتكلم”
قال قتادة: "إذا طلق في نفسه فليس بشيء”
(صحيح البخاري ج2، ص794، باب الطلاق فی الاغلاق والكرہ والسكران الخ)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

> “اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان خیالات کا محاسبہ معاف رکھا ہے جو وہ دل میں کرتے ہیں، جب تک ان پر عمل نہ کریں یا زبان سے نہ بولیں۔”

اس حدیث سے دو اہم مسائل ثابت ہوتے ہیں:

1. تحریری طلاق کے وقوع کا ثبوت

اگر کوئی شخص تحریری طور پر طلاق دے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے، خواہ زبان سے لفظ ادا نہ کرے، جیسا کہ حدیث کے الفاظ (ما لم تعمل) سے واضح ہے۔

حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:

> "واستدل به على أن من كتب الطلاق طلقت امرأته؛ لأنه عزم بقلبه وعمل بكتابته، وهو قول الجمهور.”
(فتح الباری ج9، ص345)

یعنی:
“اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تحریری طور پر طلاق دے، تو وہ طلاق واقع ہو جاتی ہے، کیونکہ اس نے دل سے ارادہ کیا اور لکھنے کا عمل بھی کیا۔ جمہور علمائے اسلام کا یہی موقف ہے۔”

2. زبانی طلاق کے وقوع کا ثبوت

تحریری طلاق کی طرح زبانی طلاق بھی واقع ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث کے الفاظ (أو تتكلم) سے ظاہر ہے۔

امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:

> "قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ.”
(جامع الترمذی مع تحفة الأحوذي ج2، ص415)

یعنی:
“اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے کہ جب تک شوہر زبان سے طلاق کے الفاظ ادا نہ کرے، طلاق واقع نہیں ہوتی۔”

امام شوکانیؒ کا بیان

> "للإستدلال به على أن من طلق زوجته بقلبه ولم يلفظ بلسانه لم يكن لذلك حكم الطلاق؛ لأن خطرات القلب مغفورة للعباد.”
(نیل الأوطار ج6، ص6)

یعنی:
“اگر کوئی شخص دل ہی دل میں طلاق کا ارادہ کرے اور زبان سے ادا نہ کرے، تو اس پر طلاق کا حکم نہیں، کیونکہ دل کے خیالات قابلِ مواخذہ نہیں۔”

امام ابن رشد قرطبیؒ کی وضاحت

> "أجمع المسلمون على أن الطلاق يقع إذا كان بلفظ صريح – فمن اشترط فيه النية واللفظ الصريح فاتباعًا لظاهر الشرع.”
(بداية المجتهد ج2، ص55)

یعنی:
“تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اگر طلاق کا لفظ صریح استعمال کیا جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے، بشرطِ نیت۔”

دیگر اکابر علما کے اقوال

شیخ الاسلام سید نذیر حسین محدث دہلویؒ بھی زبانی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں۔ (فتاویٰ نذیریہ ج3، ص73)

مفتی محمد شفیعؒ کراچی کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ زبانی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج2، ص633)

فیصلہ

مندرجہ بالا احادیثِ صحیحہ اور جمہور علما کے اقوال کی روشنی میں، بشرطِ صحتِ واقعہ مسمات معراج بی بی دختر نور صمند بھٹی، ساکن گوٹھ حاجی شاہ محمد، ضلع نواب شاہ کو رجعی طلاق واقع ہو چکی ہے۔

اور چونکہ طلاق کو تقریباً 9 ماہ گزر چکے ہیں، لہٰذا عدت کی مدت مکمل ہونے کے بعد نکاح ختم ہو گیا ہے۔

اس طرح، بشرطِ صحتِ بیان و واقعہ، نکاح شرعاً منقطع ہو چکا ہے۔

مفتی صاحب کسی قانونی سقم کے ذمہ دار نہیں ہوں گے، اور عدالتِ مجاز سے توثیق ضروری ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے