نبی کریم ﷺ کی مطلقہ بیوی کا درجہ اور نکاح کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 838

سوال

نبی کریم ﷺ کی مطلقہ عورت کا درجہ امہات المؤمنین میں برقرار رہتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو کیا وہ کسی دوسری جگہ نکاح کر سکتی تھی یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

یہ بات واضح رہے کہ "ام المؤمنین” کا یہ عظیم اور مقدس لقب رشتۂ زوجیت کے برقرار رہنے سے مشروط ہے۔
جب تک یہ رشتہ باقی رہتا ہے، عورت کو "ام المؤمنین” کہا جاتا ہے۔
لہٰذا جب تک کوئی خاتون نبی کریم ﷺ کے نکاح میں تھیں، وہ "ام المؤمنین” کہلاتی تھیں۔

جب طلاق مؤثر ہو جاتی ہے تو رشتۂ زوجیت خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح، جیسے ہی کوئی خاتون نبی کریم ﷺ کے نکاح سے الگ ہوئیں،
وہ "ام المؤمنین” کے اس مقدس لقب سے بھی محروم قرار پائیں۔

شاید اسی وجہ سے ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی تاکہ ان کا یہ اعزاز یعنی "ام المؤمنین” کا لقب برقرار رہے۔

(صحیح بخاری، ج 3، ص 785، باب المراۃ تہب یومہا من زوجھا نصرتھا)

طلاق کے بعد دوسری جگہ نکاح کا جواز

اب یہ سوال کہ نبی کریم ﷺ کی مطلقہ بیوی طلاق کے مؤثر ہونے کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے یا نہیں؟
اس مسئلہ میں علماء کے دو اقوال ہیں:

➊ وہ کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی۔
➋ وہ دوسری جگہ نکاح کرنے کی مجاز ہے۔

دلائل و نکات

(1) نکاح ایک مشروع عمل ہے

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ”

اس آیت کے مطابق نکاح ایک فطری اور شرعی ضرورت ہے،
خواہ عورت مطلقہ ہو یا غیر مطلقہ۔
لہٰذا نبی کریم ﷺ کی مطلقہ بیوی کے لیے اس جائز حق پر پابندی لگانا سراسر زیادتی ہے۔

(2) امتیازی شرف اور انسانی پہلو

کسی خوش نصیب مسلمان عورت کے لیے اس دنیا میں سب سے بڑا شرف یہی ہے
کہ وہ نبی کریم ﷺ فداہ ابی وامی کے حرمِ پاک میں شامل ہو۔

جب کوئی عورت اس حرم سے خارج قرار پائے تو وہ ایک عظیم سعادت سے محروم ہو جاتی ہے۔
ایسی عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت نہ دینا
گویا اس کی باقی زندگی کو مزید دکھ و اذیت میں ڈال دینا ہے۔

حالانکہ حدیث میں ہے:

"لا ضرر ولا ضرار” (ارواء التعلیق)

(3) قرآن مجید سے بھی اس کا جواز ظاہر ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴿٢٨﴾…الأحزاب﴾

یعنی:
"اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے کر خوبصورتی سے آزاد کر دوں۔”

تفسیرِ ابن کثیر میں وضاحت

امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت "أسرحكن سراحاً جميلاً” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"وقد اختلف العلماء في جواز تَزويج غيره لهنّ لو طلّقهنّ، على قولين، وأصحّهما نعم لو وقع، ليحصل المقصود من السراح، والله أعلم.” (تفسیر ابن کثیر، ج 3، ص 481، سورۃ الأحزاب، مصری نسخہ)

یعنی:
علماء کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ اگر نبی ﷺ اپنی ازواج کو طلاق دے دیتے،
تو کیا وہ کسی اور سے نکاح کر سکتیں یا نہیں؟
صحیح بات یہی ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ نکاح کر سکتیں،
تاکہ آیت میں مذکور "سراحاً جمیلاً” (خوبصورتی سے رخصت کرنا) کا مفہوم پورا ہو جائے۔

نتیجہ

ان تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:

طلاق کے بعد نبی کریم ﷺ کی مطلقہ بیوی "امہات المؤمنین” کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہے۔
ایسی عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے