سوال
علمائے کرام کی خدمت میں گزارش ہے کہ میرا داماد ندیم بٹ نے شراب نوشی کی حالت میں اپنی بیوی کو ایک ہی وقت میں تین بار "طلاق، طلاق، طلاق” کہہ دیا ہے۔ اب وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے شراب سے توبہ کر چکا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنا گھر دوبارہ آباد کرے۔ بیوی بھی اس پر راضی ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا وہ دونوں اپنا ازدواجی تعلق برقرار رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟ براہ کرم شرعی فتویٰ عنایت فرمائیں۔
نوٹ: داماد نے اس سے پہلے اپنی بیوی کو نہ زبانی اور نہ تحریری طور پر کبھی کوئی طلاق دی ہے، اور اس طلاق کے صرف تین دن گزرے ہیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ مسؤلہ میں اگر شوہر نے شراب کے نشے میں اس حد تک ہو کر طلاق دی ہو کہ اسے زمین و آسمان، دائیں بائیں کی تمیز نہ رہی ہو، تو ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی — نہ ایک اور نہ تین۔
لیکن اگر نشہ اتنا شدید نہیں تھا اور ہوش و حواس قائم تھے، تو ایسی صورت میں قرآن و حدیث کی واضح نصوص، صحابہ کرامؓ کے فہم اور فقہائے امت کے مطابق ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔
قرآنی دلیل
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ…٢٢٩﴾
(البقرة)
"طلاق رجعی دو مرتبہ یعنی دو وقتوں میں ہے، پھر یا تو بیوی کو بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا اچھے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔”
لفظ “مرتان” کی وضاحت
اس آیتِ مبارکہ میں لفظ "مرتان” قابلِ غور ہے، جو "مرۃ” کا تثنیہ ہے۔
"مرۃ” کا معنی ایک دفعہ یا ایک وقت ہے۔
جیسا کہ قرآنِ کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ … ٥٨﴾
(النور)
"اے ایمان والو! تمہارے غلام، لونڈیاں اور نابالغ بچے تمہارے پاس آنے سے پہلے تین اوقات میں اجازت حاصل کریں:
(1) نماز فجر سے پہلے،
(2) ظہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو،
(3) اور نمازِ عشاء کے بعد۔
یہ تین اوقات تمہارے پردے کے وقت ہیں۔”
اس آیت میں "مرات” کا معنی اوقات (وقتیں) بیان ہوا ہے۔
اور قرآن کی تفسیر کا مسلمہ قاعدہ ہے:
القرآن یفسر بعضہ بعضا
یعنی قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے۔
لہٰذا اس قاعدے کے مطابق "الطلاق مرتان” کا مفہوم یہ ہوگا کہ طلاق دو اوقات میں ہے، نہ کہ دو طلاقیں ایک ساتھ۔
اگر مقصد دو طلاقیں بیان کرنا ہوتا تو قرآن میں "الطلاق طلقتان” فرمایا جاتا، جو کہ نہیں کہا گیا۔
پس قرآن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہیں۔
احادیثِ مبارکہ سے ثبوت
حدیث نمبر 1
عن بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً.
(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، ج 1، ص 477)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
"رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں، اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی شمار ہوتی تھیں۔”
حدیث نمبر 2
عن ابن عباس عن ركانة بن عبد يزيد طلق امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن علیه حزناً شديداً فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف طلقتها؟ قال: ثلاثاً في مجلس واحد، فقال: إنما تلك واحدة، فأرتجعها.
(فتح الباری، شرح صحیح البخاری، ج 9، ص 316)
حضرت رُکانہؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں، جس پر وہ بہت غمگین ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: "تم نے طلاق کیسے دی؟”
انہوں نے عرض کیا: "میں نے تینوں طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی ہیں۔”
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"یہ تو ایک ہی رجعی طلاق ہے، تم اسے واپس لے لو۔”
نتیجہ
اگر شوہر کو طلاق دیتے وقت مکمل ہوش و حواس تھے، تو تینوں طلاقیں ایک رجعی طلاق کے حکم میں ہوں گی۔
لہٰذا عدت کے اندر رجوع کیا جا سکتا ہے اور دونوں میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
اور اگر شوہر نشے کی حالت میں اتنا بے ہوش تھا کہ شعور باقی نہ رہا، تو ایسی صورت میں طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب۔