سوال
صورت مسئلہ:
سائل، خالد جاوید ولد تاج الدین، مکان نمبر 16 علوی اسٹریٹ نمبر 40، نسبت روڈ، لاہور سے استفسار ہے کہ:
تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل میں نے شدید غصے میں اپنی بیوی سے کہا:
تم مجھے پریشان نہ کرو ورنہ میں نے تجھے طلاق دے دینی ہے۔
اور پھر تقریباً پندرہ دن قبل، اسی طرح کے غصے میں، بددعا دیتے ہوئے بیوی سے کہا:
جا، تیرا بیڑا غرق طلاق کے ساتھ ہو۔
ان دونوں مواقع پر میں شدید غصے میں تھا اور طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ صرف بیوی کو دھمکانے اور ڈرانے کے لیے یہ الفاظ کہے تاکہ وہ میری اطاعت کرے۔
میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان دو موقعوں کے سوا، میں نے اپنی بیوی کو کبھی بھی زبانی یا تحریری طور پر طلاق نہیں دی۔
اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو اس کا ذمہ دار میں خود ہوں گا اور اس فتویٰ کا بوجھ میری گردن پر ہوگا۔
اس دوسری بات کو کہے ہوئے 12 یا 13 دن گزر چکے ہیں۔
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
بشرطِ صحتِ سوال، صورتِ مسؤلہ میں پہلی بات کے ذریعے طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ یہ محض دھمکی اور انشائیہ کلام ہے۔ شریعت کے مطابق طلاق خبریہ جملے سے واقع ہوتی ہے، یعنی ایسا جملہ جو ماضی کے زمانے پر دلالت کرے، جیسے:
- میں نے تجھے طلاق دے دی ہے۔
- میں طلاق دے چکا ہوں۔
- تو مطلقہ ہے۔
اس طرح کے الفاظ طلاق کو واقع کر دیتے ہیں۔
جبکہ یہاں پہلا جملہ مستقبل سے متعلق ہے:
ورنہ میں نے تجھے طلاق دے دینی ہے۔
لہٰذا اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
دوسری دفعہ کے الفاظ کا حکم
دوسری بار سائل نے کہا:
جا، تیرا بیڑا غرق طلاق کے ساتھ ہو۔
یہ جملہ خبر کے صیغے (ماضی) پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس سے طلاق واقع ہونے کا غالب گمان ہوتا ہے کیونکہ:
- جملہ خبریہ ماضیہ ہے۔
- لفظ طلاق کا واضح استعمال ہوا ہے۔
- کلام سے طلاق کا مفہوم ظاہر ہو رہا ہے۔
لہٰذا ایک رجعی طلاق واقع ہو چکی ہے۔
رجعی طلاق میں رجوع کا حکم
رجعی طلاق کی عدت کے اندر شوہر کو رجوع کرنے کا شرعی حق حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ…٢٢٩﴾
(البقرۃ)
ترجمہ: "طلاق دو بار ہے، پھر یا تو نیکی سے روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا۔”
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رجعی طلاق کے بعد عدت کے دوران رجوع کیا جا سکتا ہے۔
تفسیر ابن کثیر کی وضاحت
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"ای اذا طلقتھا واحدة او اثنتین فانت مخیر فیھا مادامت عدتھا باقیة بین ان تردھا الیک ناویا لاصلاح بھا والاحسان الیھا وبین ان تترکھا حتی ٰ تنقضی عدتھا فتبین”
(تفسیر ابن کثیر، جلد 1، صفحہ 292)
یعنی:
- اگر تو نے بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہوں تو عدت کے اندر تجھے اختیار ہے کہ:
- اصلاح کی نیت سے بیوی کو واپس لے لے۔
- یا اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ عدت ختم ہو جائے اور وہ تجھ سے جدا ہو جائے۔
اس تفسیر سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رجعی طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع کرنا جائز ہے۔
خلاصہ کلام
- پہلی بات (ورنہ میں نے تجھے طلاق دے دینی ہے) سے طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ یہ دھمکی ہے اور مستقبل کا جملہ ہے۔
- دوسری بات (جا تیرا بیڑا غرق طلاق کے ساتھ ہو) سے ایک رجعی طلاق واقع ہو چکی ہے کیونکہ یہ خبر ماضی کی صورت میں ہے اور لفظ "طلاق” استعمال ہوا۔
- چونکہ دوسری طلاق کو صرف 12 یا 13 دن گزرے ہیں، لہٰذا عدت باقی ہے اور نکاح قائم ہے۔
- شوہر شرعاً رجوع کر سکتا ہے اور یہ رجوع بالکل جائز ہے۔
- یہ فتویٰ سائل کے حلف اور سوال کی صحت پر مبنی ہے۔ اگر اس میں جھوٹ ہو تو اس کا ذمہ دار سائل خود ہوگا۔
- مفتی کا قلم حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہیں بنا سکتا اور نہ ہی مفتی عدالتی نزاع یا فریب کا ذمہ دار ہوگا۔
ھٰذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب