زبانی طلاق کا شرعی حکم: تین طلاقوں کے بعد نکاح کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج 1، ص 799

سوال

مسمیٰ محمد انور ولد خوشی محمد، قوم قریشی، سکنہ چاہ آنہ، تحصیل بنڈی بھٹیاں، ضلع حافظ آباد، ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ان کی بیٹی مسمات نصرت بی بی کا نکاح تقریباً پانچ سال قبل مسمیٰ غلام حسین ولد محمد صدیق، قوم قریشی، موضع چاہ آنہ سے ہوا تھا۔

نکاح کے بعد مسمات نصرت بی بی اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ساڑھے تین سال تک وقفے وقفے سے آباد رہی۔ دورانِ ازدواج غلام حسین کے نطفے سے ایک بیٹا پیدا ہوا جو زندہ ہے اور اس کی عمر تقریباً دو سال ہے، وہ بچہ اس وقت ماں کے پاس ہے۔

مگر ازدواجی زندگی کے دوران شوہر غلام حسین نے اپنی بیوی پر بدچلنی کا الزام لگانا شروع کر دیا اور بچے کو اپنا نطفہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اس الزام تراشی کے باعث گھر میں جھگڑے اور کشیدگی پیدا ہوگئی۔ غلام حسین معمولی باتوں پر بیوی کو طعنے دیتا، مارتا پیٹتا اور ظلم کرتا رہا۔

آخرکار ایک دن اس نے اپنی بیوی کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا اور تین بار زبانی کہا: “طلاق، طلاق، طلاق”۔ اس کے بعد سے تقریباً ڈیڑھ سال گزر چکا ہے اور اس دوران رجوع نہیں کیا گیا۔ برادری والوں نے بارہا صلح کی کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

اب سوال یہ ہے کہ:

کیا شرعاً غلام حسین کی دی گئی تین زبانی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں یا نہیں؟

سائل محمد انور (والدِ نصرت بی بی) نے حلفاً اس سوال کی صدقّت کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی بات غلط ثابت ہو تو وہ خود اس کے ذمہ دار ہوں گے، لہٰذا شرعی فتویٰ صادر فرمایا جائے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

بشرطِ صحتِ سوال، صورتِ مسؤلہ میں ایک رجعی طلاق واقع ہو چکی ہے۔
طلاق کا تعلق خاوند کی نیت اور زبان سے ہے۔ جب کوئی عاقل و بالغ شوہر اپنی مرضی اور ارادہ سے، بلا جبر و اکراہ، کسی بھی واضح (صریح) یا غیر واضح (کنائی) الفاظ میں طلاق دے، تو طلاق شرعاً واقع ہو جاتی ہے۔
تحریری طلاق صرف اثبات کے لیے ہوتی ہے۔

حدیثِ صحیح بخاری

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّم.»
(صحیح بخاری، باب الطلاق فی الاغلال والکرہ والنیان، ج 2، ص 793-794)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو معاف کر رکھا ہے، جب تک وہ انہیں عملی صورت نہ دیں یا زبان سے ادا نہ کریں۔”

یہی حدیث صحیح مسلم (ج 1، کتاب الایمان) میں بھی موجود ہے۔
حدیث کے الفاظ “أو تتكلم” سے صاف ظاہر ہے کہ زبانی طور پر طلاق دینا بھی مؤثر ہوتا ہے۔

امام ترمذی کا قول

وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ.
(تحفة الأحوذي، ج 2، ص 215، باب ما جاء فی من یحدث نفسه بطلاق امرأته)

یعنی اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص دل میں طلاق کا ارادہ کرے مگر زبان سے ادا نہ کرے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، البتہ جب زبان سے بول دے تو طلاق ہو جاتی ہے۔

لہٰذا یہ بات شرعاً ثابت ہوئی کہ زبانی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے۔

امام ابن قدامہ حنبلی کا قول

وجملة ذلک أن الطلاق لا يقع إلا بلفظ، فلو نواه بقلبه من غير لفظ لم يقع، فی قول عامة أهل العلم.
(المغنی لابن قدامہ، ج 7، ص 294)

امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ:

“طلاق صرف لفظ سے واقع ہوتی ہے۔ اگر دل میں ارادہ کیا جائے مگر زبان سے ادا نہ کیا جائے تو وہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہ قول تمام اہلِ علم کا متفقہ موقف ہے۔”

امام ابن رشد مالکی کا قول

أجمع المسلمون على أن الطلاق يقع إذا كان بنية ولفظ صريح. فمن اشترط فيه النية واللفظ الصريح فاتباعاً لظاهر الشرع.
(بدایة المجتهد، ج 2، ص 55)

یعنی:

“تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے طلاق کا لفظ زبان سے کہا جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔”

مزید:

فالمشهور عن مالك أن الطلاق لا يقع إلا بلفظ و نية.
(بدایة المجتهد، ج 2، ص 56)

“امام مالکؒ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ طلاق لفظ اور نیت دونوں سے واقع ہوتی ہے۔”

شیخ نذیر حسین دہلوی اور مفتی عبد الحق ملتانی کا فتویٰ

“جب شوہر شریعت کے مطابق اپنی بیوی کو طلاق دے گا تو خواہ زبانی دے یا تحریری، طلاق واقع ہو جائے گی۔
(فتاویٰ نذیریہ، ج 3، ص 73)

علامہ عبد الحی حنفی لکھنوی کا قول

فإن ركن الطلاق هو التلفظ بلفظ يدل عليه، فلا يقع بمجرد العزم والنية.
(عمدة الرعاية، ج 2، ص 77، حاشیہ 7، 658)

یعنی:

“طلاق کا رکن وہ لفظ ہے جو طلاق پر دلالت کرے۔ محض نیت یا ارادہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔”

مفتی محمد شفیع دیوبندی کا فتویٰ

“دیوبند کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ زبانی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج 2)

خلاصہ کلام

مندرجہ بالا احادیثِ صحیحہ اور اقوالِ ائمہ سے یہ بات واضح ہے کہ:

صورتِ مسؤلہ میں ایک رجعی طلاق شرعاً واقع ہو چکی ہے۔

اور چونکہ سوال نامے میں مذکور ہے کہ اس طلاق کو ڈیڑھ سال گزر چکا ہے، لہٰذا عدت کی مدت ختم ہونے کے بعد نکاح ٹوٹ گیا ہے، اور مسمات نصرت بی بی اپنے شوہر غلام حسین کے عقدِ نکاح سے آزاد ہو چکی ہے۔

یہ جواب شرعی اصولوں کی روشنی میں دیا گیا ہے، بشرطِ صحتِ سوال اور گواہان کی صداقت کے پیشِ نظر۔
مفتی صاحب کسی قانونی سقم کے ذمہ دار نہ ہوں گے، اور عدالتِ مجاز سے توثیق ضروری ہے۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے