یکجائی تین طلاق: اجماع کے دعوے کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ ج1 ص780

سوال

قرآن و حدیث کے بعد یکجائی تین طلاقوں کے وقوع کے اثبات میں اجماع امت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، اور بڑے زور و شور سے یہ کہا اور لکھا جاتا ہے کہ یکجائی تین طلاق کے طلاق مغلظہ بائنہ ہونے پر اجماع قائم ہو چکا ہے؛ لہٰذا اس کے خلاف فتویٰ دینا اور یکجائی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دینا غلط اور باطل ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اجماع کے دعوے کی حقیقت

یکجائی تین طلاقوں کے تینوں واقع ہو کر مغلظ ہو جانے پر اجماع کا دعویٰ درست نہیں۔ اس دعوے پر کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے پر امت کا کبھی اجماع نہیں ہوا۔ ہاں، طلاق دینے والے کے حالات کو سامنے رکھ کر کبھی صحابہ نے ایک طہر کی تین طلاقوں کو لازم کیا اور کبھی اسے ایک قرار دیا۔

اس کے برخلاف عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، عہدِ صدیقی ﷜ اور حضرت عمر ﷜ کے خلافت کے ابتدائی دو تین برس تک اجماع اس پر رہا کہ یکجائی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔ اور حضرت عمر ﷜ کے تعزیری حکم کے بعد صحابہ کرام طلاق دہندہ کے حالات کو سامنے رکھ کر کبھی تین کو تین شمار کرتے اور کبھی ایک قرار دیتے—جیساکہ عبداللہ بن عمر ﷜ سے دونوں نوع کے فتاویٰ منقول ہیں۔ حضرت علی، عبد اللہ بن مسعود، زبیر بن عوام، عبد الرحمن بن عوف، ابو موسیٰ اشعری ﷢ یکبارگی تین طلاقوں کو ایک رجعی ہی شمار کرتے تھے۔

امام ابو حنیفہ کے دو اقوال

خود امام ابو حنیفہ سے اس مسئلے میں دو قول منقول ہیں۔ ایک یہ کہ ایک رجعی طلاق پڑتی ہے، جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے شاگرد امام محمد بن مقاتل رازی حنفی نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے:

حكاه محمد بن مقاتل الرازي من أصحاب أبي حنيفه وهو أحد القولين في مذهب أبي حنيفه

امام مالک کے بھی دو اقوال

امام مالک سے بھی دو قول منقول ہیں۔ مولانا عبد الحی نے طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں چار اقوال نقل کیے ہیں اور فرماتے ہیں:

والقول الثاني أنه إذا طلق ثلاثا تقع واحدة رجعية وهذا هو المنقول عن بعض الصحابة وبه قال داود الظاهري وأتباعه وهو أحد القولين لمالك وأصحاب أحمد انتصر لهذا لمذهب ابن تيمية الحنبلي في تصانيفه وتلميذه في كتابه زاد المعاد وإغاثة اللهفان وغيرهما من تبعهما. (1) اعاثة اللفھان لابن القیم ص157 طبع مصر، التعلیق علی الدار قطنی ج4 ص48

نتیجہ

حضرات! دعویٰ اجماع میں تو خود امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے اندر اختلاف موجود ہے؛ گویا اجماع کا دعویٰ اندر سے ہی کمزور ہو گیا۔

صحیح بخاری کی تبویب اور سلف کے اقوال

امیرالمؤمنین فی الحدیث، سید الفقہاء امام محمد بن اسماعیل بخاری نے اس زیرِ بحث مسئلے کو مختلف فیہ قرار دیتے ہوئے اپنی الجامع الصحیح میں یوں تبویب قائم فرمائی:

باب من جوز الطلاق الثلاث صحیح بخاری ج2 ص— جس نے تین طلاق کو جائز قرار دیا۔

حافظ ابن حجر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وفي الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجز وقوع الطلاق الثلاث فتح الباری ج9 ص362

پھر اسی مسئلے پر مزید گفتگو میں آگے رقم فرماتے ہیں:

الرابع أنه مذهب شاذ فلا يعمل به وأجيب بأنه نقل عن علي وابن مسعود وعبد الرحمن بن عوف والزبير مثله نقل ذلك ابن مغيث (في كتاب الوثائق له) وعزاه لمحمد بن وضاح ونقل الفتوى بذلك عن جماعة من مشائخ قرطبة كمحمد بن تقي بن مخلد ومحمد بن عبد السلام الخشني وغيرهما ونقله ابن المنذر عن أصحاب ابن عباس وكعب وطاوس وعمر بن دينار وتعجب من ابن التين حيث جزم بأن لزوم الثلاث لا اختلاف كما ترى (2) عمدة الرعایة ج2 ص81

من قال إذا طلق ثلاثا مجموعة وقعت واحدة وهو قول محمد بن إسحاق صاحب المغازي (3) فتح الباری ج9 ص263، طبع قدیمی ج9 ص454

امام طحاوی حنفی کی تصریح

امام طحاوی حنفی شرح معانی الآثار میں واضح لکھتے ہیں:

فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا فقد وقعت عليها واحدة إذا كان في وقت السنة وذلك أن تكون طاهرة في غير جماع واحتجوا في ذلك بهذا الحديث ج2 ص31

یہ بھی ملحوظ رہے کہ امام طحاوی، امام بخاری کے معاصر اور امام ابن تیمیہ سے پہلے کے محدث ہیں؛ یعنی امام طحاوی کے عہد تک بھی اس مسلک کے قائلین اتنے تھے کہ انہیں قوم (گروہ) کہا گیا۔

علامہ قرطبی کی شہادت

نامور مفسر علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں ایک مستقل فصل کے عنوان سے اس مسئلے کو ذکر کیا اور فرمایا:

وَذَكَرَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ بْنِ مُغِيثٍ الطُّلَيْطِلِيُّ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي وَثَائِقِهِ فَقَالَ ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدَ إِجْمَاعِهِمْ عَلَى أَنَّهُ مُطَلِّقٌ، لَمْ يَلْزَمْهُ الطَّلَاقُ، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ مَسْعُودٍ: يَلْزَمُهُ طَلْقَةٌ وَاحِدَةٌ، وَقَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَقَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. وَرُوِّينَا ذَلِكَ كُلَّهُ عَنِ ابْنِ وَضَّاحٍ، وَبِهِ قَالَ مِنْ شُيُوخِ قُرْطُبَةَ ابْنُ زِنْبَاعٍ شَيْخُ هَدْيٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ تَقِيِّ بْنِ مَخْلَدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ الْحَسَنِيُّ فَرِيدُ وَقْتِهِ وَفَقِيهُ عَصْرِهِ وَأَصْبَغُ بْنُ الْحُبَابِ وَجَمَاعَةٌ سِوَاهُمْ تفسیر قرطبی پارہ 2

امام رازی شافعی کا بیان

امام رازی شافعی نے تفسیر کبیر میں الطلاق مرتان کی تفسیر کے ذیل میں رقم فرمایا:

ثُمَّ الْقَائِلُونَ بِهَذَا الْقَوْلِ اخْتَلَفُوا عَلَى قَوْلَيْنِ الْأَوَّلُ: وَهُوَ اخْتِيَارُ كَثِيرٍ مِنْ عُلَمَاءِ الدِّينِ، أَنَّهُ لَوْ طَلَّقَهَا اثْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا لَا يَقَعُ إِلَّا الْوَاحِدَةُ، وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ الْأَقْيَسُ، لِأَنَّ النَّهْيَ يَدُلُّ عَلَى اشْتِمَالِ الْمَنْهِيِّ عَنْهُ عَلَى مَفْسَدَةٍ رَاجِحَةٍ، وَالْقَوْلُ بِالْوُقُوعِ سَعْيٌ فِي إِدْخَالِ تِلْكَ الْمَفْسَدَةِ فِي الْوُجُودِ وَأَنَّهُ غَيْرُ جَائِزٍ، فَوَجَبَ أَنْ يُحْكَمَ بِعَدَمِ الْوُقُوعِ.

امام رازی کی اس توضیح سے دو باتیں واضح ہوئیں:
◈ یہ مسلک زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
◈ یہ شاذ نہیں بلکہ کثیر علماء کا موقف ہے۔

علامہ بدرالدین عینی حنفی کی نشاندہی

علامہ بدرالدین عینی حنفی اس مسلک کی تائید میں لکھتے ہیں:

ذهب طاوس ومحمد بن إسحاق والحجاج بن أرطأة والنخعي وابن مقاتل والظاهرية إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثًا معًا فقد وقعت عليها واحدة، واحتجوا بحديث أبي الصهباء (1) عمدة القاری شرح صحیح البخاری

امام شوکانی کی فہرستِ قائلین

امام محمد بن علی الشوکانی نے اس مسلک کے قائلین کی نام وار فہرست دیتے ہوئے لکھا:

ذهب طائفة من أهل العلم إلى أن الطلاق لا يتبع الطلاق بل يقع واحدة فقط وقد حكى ذلك صاحب البحر عن أبي موسى رواية عن علي وابن عباس الخ

مزید یہ کہ اہلِ علم کے ایک طائفہ کے نزدیک طلاق پر طلاق (تابڑتوڑ طلاق) واقع نہیں ہوتی؛ صاحب بحر زخار نے حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت علی، ابن عباس، طاؤس، عطاء، جابر بن زید، ہادی، قاسم، باقر، ناصر احمد بن عیسیٰ، عبد اللہ بن موسیٰ بن عبداللہ، زید بن علی اور متاخرین میں سے ابن تیمیہ، ابن قیم اور محققین کی ایک جماعت کا یہی مسلک نقل کیا۔ ابن مغیث نے اپنی الوثائق میں محمد بن وضاح کا یہی موقف ذکر کیا، اور مشائخ قرطبہ جیسے محمد بن بقی، محمد بن عبد السلام وغیرہم کا بھی یہی فتویٰ نقل کیا۔ ابن منذر نے ابن عباس کے اصحاب—عطاء، طاؤس اور عمر بن دینار—کا بھی یہی مسلک بیان کیا: نیل الاوطار ج6 ص231

خلاصۂ حقیقت

یہ ہے اس اجماع کی اصلیت جس پر بعض حضرات اپنے مسلکی رجحان کی بنیاد پر مخالف موقف کو باطل اور خارقِ اجماع کہنے پر مصر رہتے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے شیخ الاسلام ابن القیم کی اعلام الموقعین، اغاثۃ اللفہان اور احمدآباد (انڈیا) کے سیمنار کی روداد اور علمائے احناف و علمائے حدیث کی متفقہ آراء ملاحظہ کریں۔ جہاں تک صحابہ کے مختلف اقوال کا تعلق ہے، تو اصولی جواب یہ ہے:

فلما احتلف الصحابة فوجب الرجوع إلى المرفوع. (1) باب الجمعۃ فی القری، فتح الباری شرح صحیح البخاری ج2 ص303

ایک طلاقِ رجعی ہونے کی احادیث

اوپر کی تفصیلی گفتگو سے واضح ہو چکا کہ یکبارگی تین طلاق دینے سے طلاقِ مغلظہ بائنہ واقع ہونے کی بات نہ کتاب اللہ سے ثابت ہے، نہ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور نہ ہی اس پر کبھی اجماع ہوا ہے۔ اس کے بعد مزید بحث کی حاجت نہیں؛ تاہم اثباتاً دو احادیث صحیحہ و صریحہ ہیں جنہوں نے اس متنازعہ مسئلہ کو فیصلہ کن بنا دیا ہے۔

حدیث اوّل: روایتِ ابن عباس (صحیح مسلم)

1۔ عَن ابنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ (2) صحیح مسلم کتاب الطلاق ج1 ص477، مسند احمد بن حنبل ج4 ص314، رواہ الحاکم ج2 ص191، نیل الاوطار ج6 ص232

یہ روایت مختلف اسناد سے صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں بے اختلافِ معنی وارد ہوئی ہے۔ روایتاً اس کے صحیح ہونے میں کلام کی گنجائش نہیں۔ حدیث اپنے مفہوم میں بالکل صریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر صدیق ﷜ کے عہد اور خلافتِ فاروقی ﷜ کے ابتدائی دو (بعض روایات میں تین) برس تک یکجائی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ جب فاروقِ اعظم ﷜ نے دیکھا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت و سہولت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے مجلسِ واحد میں تین طلاقیں دینے کو معمول بنا رہے ہیں اور غیر شرعی طریقہ پر اصرار ہے، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ لوگوں پر تین طلاقیں نافذ کر دی جائیں اور بحیثیت خلیفہ یہ تعزیری حکم جاری فرمایا۔ حدیث کے ظاہر سے یہی تعامل ثابت ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی، عہدِ صدیقی اور خلافتِ فاروقی کے ابتدائی دو برسوں میں یکبارگی تین طلاقیں ایک رجعی شمار کی جاتی تھیں۔

معترضین کے جوابات اور ان کے جوابات الجواب

(جواب) اوّل: یہ حکم غیر مدخولہ کے ساتھ خاص ہے—جیسا کہ ابو داؤد نے ایوب سختیانی سے روایت کیا—اس لیے خاص کو عام کرنا درست نہیں۔
جواب الجواب:
أما هذه الرواية التي لأبي داود فضعيفة رواها أيوب عن قوم مجهورين عن طاوس عن ابن عباس فلا يحتج بها والله أعلم. (1) نووی شرح مسلم ج1 ص448

(جواب) ثانی: یہ حدیث منسوخ ہے۔
جواب الجواب:
علامہ ماذری فرماتے ہیں کہ بعض ناواقفین خیال کرتے ہیں یہ حکم پہلے تھا پھر منسوخ ہو گیا؛ یہ موقف واضح طور پر غلط ہے، کیونکہ حضرت عمر منسوخ نہیں کر سکتے، اور اگر—معاذ اللہ—ایسا کرتے تو صحابہ فوراً انکار کرتے۔ اور اگر کہا جائے کہ یہ حکم عہدِ رسالت ہی میں منسوخ ہو گیا تھا تو یہ ممکن تو ہے، مگر ظاہرِ حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو راوی کے لیے جائز نہ تھا کہ وہ خلافتِ ابو بکر اور خلافتِ عمر کے ابتدائی دور میں اس حکم کے باقی رہنے کی خبر دیتا۔ (2) شرح نووی ج1 ص478، سبل السلام ج3 ص172

مزید برآں حضرت عمر کے فیصلے کے الفاظ بھی اس دعوے کو رد کرتے ہیں: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ

(جواب) ثالث: اتنا بڑا حکم اور اس کے راوی صرف ابن عباس؟ یہ تعجب خیز ہے۔
جواب الجواب:
امام محمد بن اسماعیل الامیر الکحلانی لکھتے ہیں: هذا مجرد استبعاد فإنه كم من سنة وحادثة انفرد بها راو ولا يضر سيما ابن عباس بحر الأمة (3)

جواب الجواب 2: خود حدیث کے الفاظ اس استبعاد کو رد کرتے ہیں: أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتِ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً قَالَ نَعَمْ (صحیح مسلم ج1 ص478)
اگر تین طلاق کا سرے سے رواج نہ تھا تو پھر ایک کیوں بنایا جاتا تھا؟ اسی لیے روح المعانی کے مصنف علامہ محمود آلوسی کو کہنا پڑا: فهو تأويل بعيد لا جواب حسن فضلا عن كونه أحسن روح المعانی ص137

(جواب) خامس: اس حدیث میں صراحت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا؛ دلیل تب ہوتی جب علم ہو اور آپ منع نہ فرماتے۔
جواب الجواب:
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: بأن قول الصحابي: كنا نفعل كذا في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في حكم الرفع على الراجح حملا على أنه اطلع على ذلك فأقره لتوفر دواعيهم على السؤال عن جليل الأحكام وحقيرها (1) فتح الباری ج9 ص365

(جواب) سادس: اجماع—حضرت عمر کے عہد میں یکبارگی تین طلاق تین ہی مانی جائیں گی۔
جواب الجواب: اجماع کے اس دعوے کی حقیقت، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام بخاری، امام ابن حجر، امام رازی، حافظ عینی حنفی، امام شوکانی، امام طحاوی حنفی، مولانا عبد الحی لکھنوی کے منقولات و تصریحات سے واضح ہو چکی ہے۔

(جواب) سابع: صحابہ کرام کا عمل اس حدیث کے خلاف ہے۔
جواب الجواب: حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت علی، حضرت زبیر بن عوام، ابن مسعود، ابن عباس، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور دیگر ایک ہزار سے زائد صحابہ ﷢ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوتی تھیں۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں: وهذا حال كل صحابة من عهد الصديق إلى ثلاث سنين من خلافة عمر بن الخطاب: طلاق الثلاث واحدة، وهم يزيدون على الألف قطعا (2) اغاثة اللفھان ج1 ص157، التعلیق المغنی ج4 ص47-48

دوسری بات یہ کہ صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی امتی کا قول حجت نہیں: لا حجة أحد دون رسول الله صلى الله عليه وسلم حجته الله البالغة
یہی حقیقت ہے ان فرضی اور کمزور جوابات کی—والحمد للہ علی ذلک۔

حدیثِ ثانی: قصۂ رکانہ

حدثنا سعد بن إبراهيم حدثنا أبي محمد عن محمد بن إسحاق، حدثني داود بن الحصين عن عكرمة مولى ابن عباس، عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن حزناً شديداً، قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كيف طلقتها؟” قال: طلقتها ثلاثاً، فقال: "في مجلس واحد؟” قال: نعم، قال: "فإنما تلك واحدة، فأرجعها إن شئت”، قال: فراجعها

’’حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رکانہ ﷜ نے اپنی بیوی کو یکجائی تین طلاقیں دے دیں، بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "كيف طلقتها؟” عرض کیا: "طلقتھا ثلاثا”۔ آپ نے پوچھا: "في مجلس واحد؟” عرض کیا: نعم۔ فرمایا: "فإنما تلك واحدة، فأرجعها إن شئت”—یہ ایک ہی طلاق ہے، اگر چاہو تو رجوع کر لو۔ چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا۔

قال احمد شاکر: اسنادہ صحیح، ورواہ أیضا فی المختار کما نقله ابن القیم فی اغاثة اللہفان ص158، ورواہ ابو یعلی والبیھقی — مسند احمد مع تعلیق احمد شاکر ج4 ص132 اور قال الشیخ الاسلام الحافظ ابن حجر: اخرجه احمد وابو یعلی وصححه من طریق محمد بن إسحاق، وهذا الحدیث نصّ فی المسألة لا یقبل التأویل الذی فی غیره من الروایات — فتح الباری ج9 ص312، طبع جدید ص362 اور قال الإمام المحقق المدقق الشوکانی: اخرجه احمد وابو یعلی وصححه، والحَدِيث نصّ فی محل النزاع — نیل الأوطار ج6 ص233

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے