احادیث کی روشنی میں یکجائی تین طلاق: دلائل اور جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ  ج1ص774

سوال

طلاق کا بیان احادیث کی روشنی میں بیان کریں

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث

قرآن مجید اور اس کی تفسیر کے بعد اب ان احادیث کا ذکر کریں گے جن سے ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاق دینے کے جواز پر دلیل پکڑی جاتی ہے۔ ان میں سے چند روایات درج ذیل ہیں:

1) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا واقعہ

نصِ روایت:

1 – عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِيَ حَائِضٌ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرََيْنِ عِنْدَ الْقُرْئَيْنِ الْبَاقِيَيْنِ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ” يَا ابْنَ عُمَرَ مَا هَكَذَا أَمَرَكَ اللهُ إِنَّكَ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قُرْءٍ ” وقَالَ: فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَاجَعْتُهَا ثُمَّ قَالَ: ” إِذَاھیی تطَهُرَ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ أَوْ أَمْسِكْ ” , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ لو کنت طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا كَانَ يَحِلُّ لِي أَنْ أُرَاجِعَهَا قَالَ: "لا كَانَتْ تَبِينُ َتَكُونُ مَعْصِيَةً.السنن الكبرى للبيهقى ج7 ص334

اس جملے لوکنت طلقتھا ثلاثا کان یحل لی ا اراجعھا قال کانت تبین سے استدلال:
یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے معلوم ہوا ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے طلاقِ مغلّظہ واقع ہوجاتی ہے۔

(جواب) اوّل:
اس اقتباس سے استدلال درست نہیں؛ کیونکہ یہ الفاظ اس معنی میں صریح نہیں۔ “طلقھا ثلاثا” کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تین طلاقیں الگ الگ اوقات میں دی گئی ہوں۔

(جواب) دوم:
اس حصۂ روایت کی سندی حیثیت مشتبہ ہے؛ یہ عبارت باقی مستند روایات میں نہیں ملتی۔ خود امام بیہقی نے واضح کیا کہ یہ اضافہ صرف شعیب سے مروی ہے۔ امام شوکانیؒ لکھتے ہیں: وفی اسناد ھا شعیب بن رزیق الشامی وہو ضعیف۔ اسی سند میں عطاء خراسانی بھی ہیں جنہیں امام بخاری، شعبہ، ابن حبان نے ضعیف اور سعد بن مسیب نے کذاب کہا۔ لہٰذا اس طرح کے محلِّ کلام اضافے سے دلیل لینا درست نہیں؛ حفاظ کی مستند روایات میں یہ الفاظ سرے سے موجود نہیں۔
ہاں، صحیح مسلم ج1ص 476 میں ابن رمح کی روایت ہے: َإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ، وَعَصَيْتَ اللهَ فِيمَا أَمَرَكَ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِكَ۔ صحیح بخاری میں بھی اصل واقعہ موجود ہے، مگر یہ اضافہ دراصل عبداللہ بن عمرؓ کا اپنا فتویٰ ہے، مرفوع نہیں۔ مزید یہ کہ َإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا ایک مجلس میں تین طلاق پر صریح نہیں؛ “طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا” کا اطلاق متعدد مواقع پر دی گئی تین طلاقوں پر بھی ہوتا ہے۔

2) حضرت عُوَیمر عَجلانیؓ کا لعان والا واقعہ

نصِ روایت:

قَالَ سَهْلٌ: فَتَلاَعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ تَلاَعُنِهِمَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،(1)صحیح البخاری باب من اجازطلاق الثلاث ج 2 ص791

استدلال پیش کیا جاتا ہے:
چونکہ عویمرؓ نے حضور ﷺ کے سامنے یکجائی تین طلاقیں دیں اور آپ ﷺ نے نکیر نہ فرمائی، لہٰذا اکٹھی تین طلاقیں نافذ ہوجاتی ہیں۔

(جواب) سوم:
یہ استدلال درست نہیں؛ کیونکہ لعان خود بخود تفریق کا سبب بن جاتا ہے۔ لعان کے بعد نہ رجوع کی گنجائش رہتی ہے اور نہ دوبارہ نکاح کی۔ جبکہ طلاقِ مغلّظہ بائنہ کے بعد عورت دوسرے شوہر سے باقاعدہ نکاح کرے، پھر وہ فوت ہو یا اپنی طرف سے طلاق دے (بلا کسی حیلۂ شرط)، تو عدت کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا عویمرؓ کی تین طلاقیں محض تاکید اور تصدیق کے طور پر تھیں، ورنہ لعان کے ساتھ ہی جدائی ہوچکی تھی۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اسے بےفائدہ عمل قرار دے کر بظاہر نکیر نہ فرمائی ہوگی۔
امام ابن قدامہ الحنبلی لکھتے ہیں: اما حدیث المتلا عنین فغیر لازم لان الفرقة لم تقع بالطلاق فإنھا وقعت بمجرد لعانما. (2)المنغنی ج7ص103.

مزید وضاحت (نہ نکیر کی علتیں):

شمس الائمہ سرخسی (احناف) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اس وقت شفقتاً انکار مؤخر کیا؛ شدید غصے میں وہ بات نہ مانتے اور کفر کا اندیشہ تھا، اس لیے مناسب وقت تک مؤخر کیا اور صرف یہ فرمایا کہ “فلا سبیل لک علیھا”۔

◈ مزید یہ کہ تین طلاقیں یکجا مکروہ ہیں کیونکہ بلا ضرورت تلافی کا دروازہ بند کرتے ہیں؛ تاہم لعان میں تو تلافی کا دروازہ پہلے ہی بند ہوتا ہے، اور عجلانی لعان پر مصر تھے۔

علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی ایک توجیہ:
أولا فان التطابق بین الحکایة والمحکی عنه… (فیض الباری)
یعنی ممکن ہے اصل میں طلاقیں متفرق ہوں، راوی نے مجموعی طور پر “ثلاثا” کہا ہو۔ اس زاویے سے متعدد روایات کا اشکال حل ہوجاتا ہے۔

3) محمود بن لبیدؓ کی روایت

نصِ روایت:

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لُبَيْدٍ قَالَ: «أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا فَقَامَ غَضْبَانَ ثُمَّ قَالَ: أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ، حَتَّى قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَقْتُلُهُ؟وفی بعض روایات وامضاء علیه ولم یرده ۔النسائی

(جواب) چہارم:
بعض روایات کا محلِّ استدلال حصہ ثابت نہیں۔ مزید یہ کہ اگرچہ محمود بن لبیدؓ عہدِ نبوی میں پیدا ہوئے، مگر ان کا حضور ﷺ سے سماع محلِّ نظر ہے۔ امام ابن کثیر نے اسے منقطع کہا: فیہ انقطاع (تفسیر ابن کثیر ج1 ص 477)۔

4) جدّ اُبادہ بن صامتؓ والی روایت

نصِ روایت:

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: طَلَّقَ جَدِّي امْرَأَةً لَهُ أَلْفَ تَطْلِيقَةٍ، فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا اتَّقَى اللَّهَ جَدُّكَ، أَمَّا ثَلَاثٌ فَلَهُ، وَأَمَّا تِسْعُ مِائَةٍ وَسَبْعَةٌ وَتِسْعُونَ فَعُدْوَانٌ وَظُلْمٌ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ۔(مصنف عبد الرزاق)

(جواب) پنجم:
یہ روایت انتہائی ضعیف ہے؛ اس میں بعض راوی ضعیف اور بعض مجہول ہیں۔ سند یہ ہے:
عن یحییٰ بن العلاء عن عبد اللہ بن الولید الوصافی عن ابراھیم بن عبادة بن الصامت عن داؤد عن عبادة بن الصامت قال طلق جدی .
اس پر تبصرہ: أجیب بان یحیی بن العلاء ضعیف وعبداللہ بن الولید ھالک وابراھیم بن عبد اللہ مجھول… پھر خود والدِ اُبادہؓ نے اسلام نہیں پایا، تو جدّ کا ذکر کیسے معتبر ہوگا؟ (1)نیل الاوطار ج6ص 232.

5) حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کی روایت

نصِ روایت:

وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنِ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِح، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنِ الْبَهِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً» (صحيح مسلم)

استدلال پیش کیا جاتا ہے:
یہاں سے اخذ کیا جاتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق سے طلاقِ مغلظ واقع ہوگئی، ورنہ رجعی طلاق میں نفقہ لازم آتا۔

(جواب) ششم:
یہ استدلال درست نہیں؛ “ثلاثا” سے یکجائی تین طلاقیں مراد ہونا لازمی نہیں۔ مزید برآں اسی حدیث کی دوسری روایات میں صراحت ہے کہ اس سے پہلے دو طلاقیں ہوچکی تھیں اور یہ آخری (تیسری) طلاق تھی:

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ… فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ،

• اسی طرح: عَنِ الزُّهْرِيِّ… فَأَرْسَلَ إِلَى امْرَأَتِهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ بِتَطْلِيقَةٍ كَانَتْ بَقِيَتْ مِنْ طَلَاقِهَا۔ (1)صحیح مسلم ج1 ص 484.

ان دونوں صحیح روایات سے واضح ہوا کہ یہ تیسری طلاق تھی، نہ کہ یکجائی تین۔ اصولِ حدیث الحَدِیثُ یُفَسِّرُ بَعْضُہ بَعْضًا کے مطابق “طلقنی زوجی ثلاثا” مجمل ہے اور یہ دونوں روایات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔

6) رفاعہ قرظیؓ کی بیوی کا مسئلہ

نصِ روایت:

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ امْرَأَةَ رِفَاعَةَ القُرَظِيِّ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلاَقِي، وَإِنِّي نَكَحْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ القُرَظِيَّ، وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ الهُدْبَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لاَ، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ. (2) صحیح البخاری :باب من طلاق الثلاث الخ ج1ص791.

استدلال:
یہ کہا جاتا ہے کہ “بتّ طلاقی” تین طلاقوں کے مترادف ہے، اسی لیے حرمتِ مغلّظہ ثابت ہوئی۔

(جواب) ہفتم:
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (فتح الباری) اس استدلال پر تعجب ظاہر کرتے ہیں: فان البتة بمعنی القطع… یعنی “البتہ” کا معنی قطعِ عصمت ہے، جو عام ہے؛ چاہے تین طلاقیں اکٹھی دی گئی ہوں یا تیسری طلاق جو آخری تھی۔ آگے باب اللباس میں صراحت آتی ہے: طلقھا اٰخر ثلاث تطلیقات، لہٰذا اس سے یکجائی ثلاثہ پر استدلال باطل ہے۔
(فتح البارئ ج9ص468 باب اذا طلقها ثلاثاثم فزوجت بعد العدة زوجها غيره فلم يمسها)

7) رکانہؓ والی روایت (طلاقِ البتہ)

نصِ روایت:

عَنْ رُكَانَةَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ، قَالَ وَاحِدَةً، قَالَ آللَّهِ قَالَ آللَّهِ وَاحِدَةً قَالَ هُوَ مَا أَرَدْتَ قَالَ أَبُو دَاوُدوَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ، وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ، وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ.

(جواب) نہم:
یہ روایت بذاتِ خود ضعیف ہے۔ امام ابو داود کا اسے ابن جریج کی روایت پر ترجیح دینا محلِّ نظر ہے؛ کیونکہ یہاں بھی ضعف پایا جاتا ہے۔ ایک راوی زبیر بن سعید ہے جس کے بارے میں ترمذی کہتے ہیں: لانعرفه الا من ھذا الوجہ… اور امام احمد کے نزدیک طرق اسناد ضعیف اور متن و سند میں اضطراب ہے۔
(3) عون المعبود ج2ص 232.

ایک اور جواب:
یہ دونوں روایات دراصل دو مختلف واقعات پر محمول ہیں: پہلی رکانہ کے والد عبد یزید کے واقعہ سے متعلق (عون المعبود ج2 ص 226)، اور دوسری خود رکانہ کے بارے میں (عون المعبود ج2 ص 231)۔ تفصیل حافظ ابن قیم کے حوالے سے عون المعبود میں موجود ہے۔
خلاصہ یہ کہ ابو داود کی روایت مضطرب بھی ہے اور ضعیف بھی، اس لیے قابلِ استدلال نہیں۔ البتہ مسند احمد میں رکانہ والی جو روایت ہے جس میں طلاقِ بتہ کے بجائے طلاقِ ثلاثہ کا ذکر ہے، وہ صحیح ہے۔

8) “من طلق البتہ ألزمناه ثلاثا” والی روایت

نصِ روایت:

عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا طَلَّقَ الْبَتَّةَ فَغَضِبَ , وَقَالَ: «تَتَّخِذُونَ آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا , أَوْ دِينَ اللَّهِ هُزُوًا وَلَعِبًا , مَنْ طَلَّقَ الْبَتَّةَ أَلْزَمْنَاهُ ثَلَاثًا لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ. 1)دار قطنی مع المغنی ج 4ص20

(جواب) دہم:
یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ امام دارقطنی خود فرماتے ہیں کہ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ القرشی ضَعِيفُ متروک الْحَدِيثِ۔ دوسرا راوی عثمان بن قطر ہے؛ ابن معین فرماتے ہیں: لا یکتب حدیثہ، اور ابن حبان کے مطابق: یروی موضوعات عن الثقات۔ تیسرا راوی عبدالغفور ہے جسے محمد طاہر پٹنی نے یضع الحدیث کہا۔ ابن تیمیہ کے بقول: فی اسنادہ ضعفاء ومجاھیل۔ لہٰذا ایسی کمزور سند سے استدلال علمی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔

9) حضرت حسن بن علیؓ اور عائشہ خثعمیہ کا واقعہ

نصِ روایت:

عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ الْخَثْعَمِيَّةُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَلَمَّا قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَتْ: لِتَهْنِئْكَ الْخِلَافَةُ، قَالَ: بِقَتْلِ عَلِيٍّ تُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ اذْهَبِي فَأَنْتِ طَالِقٌ، يَعْنِي ثَلَاثًا قَالَ: فَتَلَفَّعَتْ بِثِيَابِهَا وَقَعَدَتْ حَتَّى قَضَتْ عِدَّتَهَا فَبَعَثَ إِلَيْهَا بِبَقِيَّةٍ بَقِيَتْ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا وَعَشَرَةِ آلَافٍ صَدَقَةً، فَلَمَّا جَاءَهَا الرَّسُولُ قَالَتْ( مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مَفَارِقٍ) فَلَمَّا بَلَغَهُ قَوْلُهَا بَكَى ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ جَدِّي أَوْ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ جَدِّي يَقُولُ: ” أَيُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا عِنْدَ الْأَقْرَاءِ أَوْ ثَلَاثًا مُبْهَمَةً لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ” لَرَاجَعْتُهَا "(وَكَذَلِكَ)رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ . ۔”(2)السنن الکبریٰ للبیھقی ج7 ص 23ودار قطنی(ج4ص3.

جواب:
یہ روایت بھی شدید ضعف کی بنا پر محلِّ استدلال نہیں۔ حافظ بیہقی نے اسے دو سندوں سے ذکر کیا ہے جن کے رواۃ پر سخت جرح ہے:

• پہلی سند میں محمد بن حمید الرازی کے بارے امام بخاری: فیه نظر، ابو زرعہ نے انہیں کذبہ کہا؛ کسج نے کہا: اشھد انہ کذاب؛ صالح کہتے ہیں: مارایت اجرا علی اللہ منہ… (تہذیب التہذیب ج 4ص 135)

سلمہ بن فضل القرشی: ابو حاتم کے نزدیک منکر الحدیث، ابو زرعہ کے حوالے سے: خرجنا من الری حتیٰ رمینا بحدیثہ (تہذیب التہذیب ج7،113)

• دوسری سند میں عمران بن مسلم کے بارے ابو احمد الزبیری: الرارافضی کانه جرو کلب (معنی خود واضح ہے)

نتیجہ یہ کہ اس سے دلیل قائم کرنا علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔

مجموعی نتیجہ

یہ وہ روایات ہیں جن کے ذریعے اکٹھی تین طلاقوں کو طلاقِ مغلّظہ بائنہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس موضوع پر کوئی صحیح، صریح اور غیر مبہم حدیث موجود نہیں: جو روایتیں صحیح ہیں وہ اس مفہوم پر صریح نہیں، اور جو صریح الفاظ رکھتی ہیں ان کا تعلق اس زیرِ بحث مسئلے سے نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے