الطلاق مرتان کی تفسیر: مفسرین کی آراء اور شرعی طریقہ طلاق
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ ج1ص766

سوال

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ مفسرین کی تصریحات میں واضح کریں

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں طلاق کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں۔ اب ہم مفسرین کرام کی آراء کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ کا کیا مطلب ہے؟

مفسرین کی مختلف آراء

پہلا قول: طلاقِ رجعی کے بارے میں

◄ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت طلاق رجعی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
◄ مطلب یہ ہے کہ طلاق رجعی دو مرتبہ دی جاسکتی ہے۔ ان دو کے بعد شوہر کے پاس دونوں اختیارات رہتے ہیں:

✿ عورت کو واپس لے آئے (رجوع کرے)
✿ یا چھوڑ دے۔
◄ البتہ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔

دوسرا قول: طلاق دینے کا شرعی طریقہ

◄ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کو شرعی طریقہ طلاق دینے کے بارے میں ہے۔
◄ یعنی طلاق ایک کے بعد دوسری بار صرف دو مرتبہ دی جانی چاہیے۔
◄ ان دو طلاقوں کے بعد مرد کے پاس اختیار رہتا ہے کہ وہ رجوع کرے یا عورت کو چھوڑ دے۔
◄ لیکن اگر کوئی شخص اس کے بعد تیسری طلاق بھی دے دے تو عورت اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔

ان دونوں کے علاوہ کچھ اور اقوال بھی ہیں، مگر بنیادی اہمیت کے یہی دو قول ہیں۔

امام ابن جریر کی وضاحت

امام المفسرین ابن جریر نے دونوں اقوال ذکر کیے ہیں اور پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔

پہلے قول کے حوالے سے ان کے الفاظ:

إختلف أھل التاویل فی تاویل ذلک فقال بعضھم ھو دلالة علی عدد الطلاق الذی یکون الرجل فیه الرجعة والعدد الذی تبین به زوجة منه.

◄ اہلِ تفسیر کے درمیان اختلاف ہے۔
◄ بعض نے کہا کہ یہ آیت اس طلاق کی تعداد بتاتی ہے جس میں مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے، اور وہ تعداد جس کے بعد عورت شوہر سے جدا ہوجاتی ہے۔
◄ جاہلیت میں طلاق کی کوئی حد مقرر نہ تھی، لوگ بار بار طلاق اور رجوع کرتے رہتے تھے۔
◄ قرآن نے یہ وضاحت فرمائی کہ رجوع کا حق صرف دو طلاقوں تک ہے۔ تیسری کے بعد یہ حق ختم ہوجاتا ہے۔

دوسرے قول کے حوالے سے ان کے الفاظ:

وقال اٰ خرون انما انزلت هذه الأیة علی نبی اللہ صلی اللہ علیه وسلم تعریفا من اللہ تعالی ذکرہ عبادہ سنة طلاقھم نسائھم…

◄ کچھ مفسرین نے کہا کہ یہ آیت نازل ہی اس لیے ہوئی تاکہ اللہ اپنے بندوں کو طلاق کا شرعی طریقہ سکھلائے۔
◄ مقصد یہ نہیں تھا کہ عورت شوہر سے کس طلاق کے بعد جدا ہوجائے۔

ابن جریر کی رائے

والذی أولی بظاہر التنزیل ما قاله عروة وقتادة…

◄ ابن جریر نے کہا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے قریب تر بات وہی ہے جو عروہ اور قتادہ نے کہی۔
◄ یعنی یہ آیت طلاق کی تعداد پر دلیل ہے:
✿ وہ تعداد جس کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔
✿ اور وہ تعداد جس میں رجوع ممکن ہے۔

امام جصاص رازی (حنفی) کی تحقیق

امام ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں تین معانی ذکر کیے:

➊ یہ آیت اس طلاق کا بیان ہے جس کے بعد رجوع کا حق باقی رہتا ہے (قول: عروہ بن زبیر اور قتادہ سے مروی)۔
➋ یہ آیت طلاقِ سنت یعنی پسندیدہ طلاق دینے کا طریقہ بتاتی ہے (قول: ابن عباس اور مجاہد سے مروی)۔
➌ اگر کوئی تین طلاق دینا چاہے تو لازم ہے کہ انہیں الگ الگ دے۔

◄ ان کے نزدیک یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ طلاقیں الگ الگ دینی چاہییں، نہ کہ ایک ساتھ۔

علامہ شمس پیرزادہ (امیر جماعت اسلامی، مہاراشٹر) کی وضاحت

"مرتان” کا مطلب محض لفظ "طلاق” دہرانا نہیں ہے۔
◄ بلکہ اس کا مطلب ہے: ایک کے بعد دوسری دفعہ طلاق دینا۔
◄ اگر کوئی ایک ہی وقت میں "طلاق طلاق طلاق” کہہ دے تو یہ "مرتان” کے مفہوم میں نہیں آتا۔

انہوں نے اس پر تین دلائل دیے:

1. لغوی دلیل: عربی میں "مرتان” کا مطلب ہے "مرۃ بعد مرۃ” (ایک کے بعد ایک)، نہ کہ صرف تکرار۔
2. رمی جمار کی مثال: اگر کوئی ایک ساتھ سات کنکریاں مارے، تو ایک ہی شمار ہوگی، سات نہیں۔
3. قسم کھانے کی مثال: اگر کوئی کہے "میں چار قسمیں کھاتا ہوں” تو یہ ایک شمار ہوگی، چار نہیں۔

دیگر مفسرین کی آراء

امام رازی: "مرتان” کا مطلب ہے "دو دفعہ”، اور طلاق شرعی متفرق ہونی چاہیے۔
ابن قیم (زاد المعاد): "مرتان” کا مطلب ہے الگ الگ دینا، نہ کہ ایک ساتھ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی: اگر دو طلاقیں ایک ساتھ معتبر نہیں تو تین بھی معتبر نہیں ہوں گی۔
ابو بکر جابر الجزائری (ایسر التفاسیر): ایک طلاق دو، پھر رجوع کرو، پھر دوسری دو، پھر رجوع کرو۔ تیسری پر رجوع کا حق ختم ہو جاتا ہے۔

خلاصہ اور اہم نکات

◈ قرآن مجید کے مطابق:
✿ طلاق ایک کے بعد ایک دی جائے، نہ کہ ایک ساتھ۔
✿ "مرتان” سے مراد الگ الگ دو بار طلاق دینا ہے۔
✿ بیک وقت تین طلاق دینے کا ذکر قرآن میں موجود نہیں۔

◈ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ بات طے ہے کہ طلاق الگ الگ دینی چاہیے۔
◈ ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت و شرع کے خلاف ہے۔

نتیجہ

قرآن کی آیات سے واضح ہے کہ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ کا مطلب ہے کہ طلاق دو بار الگ الگ دی جائے۔

◄ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔
◄ لیکن تیسری کے بعد یہ حق ختم ہوجاتا ہے۔
◄ ایک ساتھ تین طلاق دینا قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے