طلاق کی اقسام کی وضاحت
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں طلاق کی تین بنیادی اقسام بیان کی گئی ہیں:
➊ طلاقِ رجعیہ
- ایسی طلاق جس میں عدت پوری ہونے سے پہلے شوہر اپنے قول یا عمل سے رجوع کرسکتا ہے۔
- عدت گزرنے کے بعد بھی اگر چاہے تو دوبارہ نکاح کرکے ازدواجی زندگی بحال کرسکتا ہے۔
- اس میں حلالہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
➋ طلاقِ بائنہ
- اس طلاق میں عدت ختم ہونے کے بعد شوہر دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔
- لیکن اس کے لئے تجدید نکاح کرنا لازمی ہوتا ہے۔
➌ طلاقِ مغلظہ
- اس میں شوہر کے لئے بغیر حلالہ تجدید نکاح ممکن نہیں ہوتا۔
طلاقِ مغلظہ پر تفصیلی گفتگو
آج کی گفتگو میں بنیادی طور پر تیسری قسم یعنی طلاقِ مغلظہ موضوع بحث ہے۔
عورت کا مقام اسلام سے پہلے
- اسلام سے قبل عورت مظلومیت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔
- ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی لیکن اس کے حقوق کی کوئی پروا نہیں تھی۔
- اسلام نے طلاق کے بارے میں جو عادلانہ قانون پیش کیا وہ ایک انقلابی اصلاح تھی، جس کے خوشگوار نتائج سامنے آئے۔
دیگر مذاہب اور اقوام میں رواج
- برصغیر کی اقوام کے نزدیک ایک بار شادی ہو جانے کے بعد رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا تھا۔
- مسیحیت میں یہ تعلق انتہائی مقدس مانا جاتا تھا اور اسے ختم کرنا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔
- انجیل متیٰ میں ہے:
’’جسے خدا نے جوڑ اسے آدمی جدا نہ کرے‘‘ (متیٰ 2:19) - اس کے برعکس عرب معاشرے میں شوہر کو یہ آزادی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو بے شمار مرتبہ طلاق دے اور عدت ختم ہونے سے پہلے بار بار رجوع کرلے۔
انصاری صحابی کا واقعہ
- ایک انصاری صحابی نے اپنی بیوی کو دھمکی دی:
"لا اقربک ولا تجلس منی”
(نہ تو میں تجھ سے تعلق رکھوں گا اور نہ ہی تجھے نکاح کے بندھن سے آزاد کروں گا) - اس نے مزید کہا:
"اطلقک حتی ٰ اذای دنی اجلک راجعتک ثم اطلقک فاذا دنا اجلک راجعتک”
(میں تجھے طلاق دوں گا، جب عدت ختم ہونے کے قریب ہوگی رجوع کر لوں گا، پھر طلاق دوں گا اور پھر رجوع کر لوں گا، اور یہ سلسلہ جاری رکھوں گا) - اس عورت نے روتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شکایت پیش کی۔
- اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و حکمت کے تحت آیت نازل فرمائی:
﴿الطلاق مرتان﴾ - اس آیت نے عورت کے اس ظلم کا خاتمہ کیا اور عائلی قوانین میں ایک انقلابی مگر عادلانہ اصلاح پیش کی۔
طلاق اور ازدواجی رشتہ کی اہمیت
- نکاح کو اسلام میں ایک مقدس رشتہ قرار دیا گیا ہے۔
- یہ وہ بنیاد ہے جس پر معاشرہ اور تہذیب قائم ہوتی ہے۔
- لیکن بعض اوقات حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں رہتا۔
- باہمی نفرت اور دوری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ تعلق نبھانا دونوں کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔
- ایسے حالات میں علیحدگی دونوں خاندانوں کے لئے رحمت اور خیر و برکت کا باعث بنتی ہے۔
طلاق کی اجازت اور اس کی ناپسندیدگی
- اسلام نے ایسی مجبوریوں میں طلاق کی اجازت دی ہے۔
- لیکن ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی:
"ان ابغض الحلال عند اللہ الطلاق”
(اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال چیز طلاق ہے) - مزید برآں طلاق دینے کا حکیمانہ طریقہ بھی سکھایا گیا تاکہ اصلاح کا ہر موقع باقی رہے۔
قرآن کی ہدایت
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٢٩﴾ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ …٢٣٠﴾
…البقرۃ
ترجمہ: "طلاق دو بار ہے، پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا بھلے طریقے سے چھوڑ دینا ہے… پھر اگر اس کو طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے…”
آیات کی روشنی میں نتیجہ
- ان آیات میں ایک مجلس میں تین طلاق کا حکم نہیں۔
- قرآن کے مطابق تین طلاق تین الگ مواقع پر دی جائیں گی۔
- پہلی اور دوسری طلاق رجعی ہوگی جس میں رجوع کی گنجائش باقی ہے۔
- لیکن تیسری طلاق کے بعد عورت مرد پر حرام ہوجاتی ہے، الا یہ کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ نکاح کسی شرط کے بغیر ختم ہو۔
یکبارگی تین طلاق دینے کا مسئلہ
- بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں مجلس یا طُہر کا ذکر نہیں، لہٰذا اگر تین طلاق ایک ہی وقت میں دے دی جائیں تو وہ نافذ ہوں گی۔
- لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے تین بار طلاق دینے کا ذکر کیا ہے، نہ کہ ایک بار میں تین طلاق دینے کا۔
- اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا تقاضا ہے کہ طلاقیں الگ الگ اوقات میں دی جائیں تاکہ رجوع کا امکان باقی رہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب