نامرد شوہر کے ساتھ نکاح کا حکم اور فسخ نکاح کا شرعی طریقہ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص763

سوال

میں شوکت علی ولد تاج دین قوم لوہار، سکنہ جانی والا تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ ہوں۔ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا ہے جو ذیل میں پیش کرتا ہوں:

میری بیٹی مسمات شگفتہ بی بی کا نکاح مسمی اقبال عرف لال ولد منظور قوم لوہار، چک نمبر 630 جالب کا، تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد سے تقریباً 2 سال قبل کیا گیا تھا۔ میری بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً 8 ماہ وقفے وقفے سے آباد رہی۔ دورانِ آبادگی یہ حقیقت سامنے آئی کہ خاوند اقبال عرف لال نامرد ہے اور حق زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہے۔

شوہر نے علاج بھی بہت کروایا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ شگفتہ بی بی نے والدین کو یہ بات بتائی کہ شوہر نامرد ہے۔ والد (شوکت علی) نے بھی علاج کروایا لیکن لڑکا صحت مند نہ ہوا۔ اب تقریباً 1 سال 4 ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے کہ بیٹی والدین کے پاس رہ رہی ہے، لیکن خاوند آج تک تندرست نہیں ہو سکا۔ بار بار علاج کے باوجود شفا نہ ملی۔ والد (شوکت علی) نے لڑکے کے تایا اور چچا کو بھی بتایا کہ لڑکا نامرد ہے اور ٹھیک نہیں ہوا۔

اب سوال یہ ہے کہ شرعاً میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا میری بیٹی شگفتہ بی بی نئے نکاح کی حقدار ہے یا نہیں؟ برائے کرم مجھے مدلل شرعی جواب دیا جائے۔ اگر کسی قسم کی غلط بیانی ہو تو اس کے نتائج کی ذمہ داری میری ہوگی۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحتِ سوال: اگر شوہر اقبال عرف لال ولد منظور واقعی نامرد ہے اور ایک سال کے مکمل علاج کے باوجود بھی اس کی قوتِ مجامعت بحال نہیں ہوئی، تو شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی شگفتہ بی بی دختر شوکت علی لوہار کو طلاق دے کر آزاد کرے۔

اگر وہ طلاق نہیں دیتا تو شگفتہ بی بی کو حق ہے کہ فیملی کورٹ میں دعویٰ دائر کرے۔ عدالت (حاکم) کو اختیار ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تفریق (فسخ نکاح) کی ڈگری جاری کرے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

﴿وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا…٢٣١﴾
(البقرۃ)

’’انہیں (بیویوں کو) تکلیف دینے اور زیادتی کرنے کے ارادے سے نہ روکے رکھو، اور جو ایسا کرے وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے۔‘‘

جمہور علما کا مؤقف

جمہور علمائے اسلام کے نزدیک اگر شوہر اپنی بیوی کو نان و نفقہ دینے سے قاصر ہے یا اس کے عیوب کی وجہ سے بیوی کا دینی و دنیاوی نقصان ہو رہا ہے تو بیوی کو فسخِ نکاح کا حق حاصل ہے۔

جیسا کہ روایت ہے:

قد ذھب جمھور العماء اھل العلم من الصحابة فمن بعدھم إلی أنه یفسخ النکاح بالعیوب وقد روی عن علی وعمر وابن عباس انھا لا ترد النساء إلا بأربعة عیوب الجنون والجذام والبرص والداء فی الفرج والرجل یشارک المرأة فی الجنون والجذام والبرص تفسخه المرأة بالجب والعنة.
(نیل الاوطار ج6، ص 157۔ فتاویٰ نذیریہ ج3، ص 549)

اس روایت کے مطابق:
❀ بیوی کو چار عیوب کی وجہ سے نکاح فسخ کرنے کا حق ہے:
➊ دیوانگی
➋ کوڑھ
➌ پھلبیری
➍ فرج کی بیماری
❀ ان تین بیماریوں میں مرد و عورت برابر ہیں۔
❀ اگر مرد نامرد (عنین) ہے یا اس کا ذکر کٹا ہوا ہے تو بیوی فسخ نکاح کر سکتی ہے۔

حضرت عمر فاروق ؓ کا فیصلہ

مولانا عبد الحی حنفی لکھتے ہیں:

عن عمر أنه قضی فی العنین أن یوجل سنة أخرجه عبد الرزاق والدار قطنی ومحمد بن الحسن فی کتاب الأثار وفی روایة فلما مضی الأجل خیرھا فاختارت نفسھا ففرق بینھما…
(عمدة الرعایة، حاشیہ نمبر 2، شرح الوقایة ج2، ص142)

اس روایت کے مطابق:
✿ حضرت عمر فاروق ؓ نے فیصلہ کیا کہ اگر شوہر نامرد ہو تو اسے ایک سال کی مہلت دی جائے تاکہ وہ علاج کروا سکے۔
✿ اگر سال کے بعد بھی صحت یاب نہ ہو تو عورت کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس کے ساتھ رہے یا الگ ہو جائے۔
✿ جب عورت نے الگ ہونا پسند کیا تو حضرت عمر ؓ نے ان دونوں میں تفریق کروا دی۔

اسی طرح کے فیصلے حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے بھی مروی ہیں (سبل السلام شرح بلوغ المرام ج3، ص 136،138)۔

موجودہ صورتِ حال

✿ چونکہ سوال میں یہ وضاحت ہے کہ شوہر پہلے ہی اپنا علاج بار بار کروا چکا ہے لیکن صحت یاب نہیں ہوا۔
✿ لہٰذا اب مزید مہلت دینا بے فائدہ ہے۔

پس، شگفتہ بی بی کو چاہیے کہ:
➊ فی الفور عدالتِ مجاز سے نکاح فسخ کروا لے۔
➋ یا پنچایت کے ذریعے تفریق کروا لے۔
➌ بعد ازاں اپنے شرعی ولی کی اجازت سے دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

تاہم، اس کے لیے عدالت یا مجاز اتھارٹی کی اجازت اور تصدیق لازمی ہے۔
مفتی صاحب کسی قانونی سقم کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔

یہ فتویٰ بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے