سوال
ایک عورت کا خاوند گم ہو جائے تو وہ کتنی مدت کے بعد دوبارہ نکاح کر سکتی ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں فتویٰ ارشاد فرمائیں۔
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
سوال کے مطابق اگر واقعی کسی عورت کا شوہر گم ہو جائے اور اس کی زندگی یا وفات کا کچھ بھی پتہ نہ چل سکے، نہ اس کے والدین یا گھر والوں میں سے کسی کو علم ہو، نہ دوستوں یا واقف کاروں میں سے کوئی خبر دے سکے، تو اس عورت کے لیے انتظار کی مدت درج ذیل ہے:
حضرت عمر فاروق ؓ کا قول
◄ حضرت عمر فاروق ؓ کے مشہور فتویٰ کے مطابق ایسی عورت اپنے شوہر کا چار برس تک انتظار کرے۔
◄ چار برس مکمل ہونے کے بعد وہ عورت چار ماہ دس دن بیوگی کی عدت گزارے۔
◄ عدت مکمل کرنے کے بعد وہ عورت اپنے مستقبل کے بارے میں شرعاً آزاد اور مختار ہوگی، چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔
جیسا کہ "سبل السلام” میں ہے:
عَنْ عُمَرَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – فِي امْرَأَةِ الْمَفْقُودِ – تَرَبَّصُ أَرْبَعَ سِنِينَ ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا
(سبل السلام شرح بلوغ المرام، ج2، ص 207،208)
حضرت عمر فاروق ؓ کی وضاحت
حضرت عمر ؓ نے فرمایا:
جس عورت کا شوہر گم ہو جائے وہ چار برس تک اس کا انتظار کرے۔ جب چار برس مکمل ہو جائیں تو گویا وہ فوت شمار ہوگا اور اس کی بیوی بیوہ قرار پائے گی۔ لہذا وہ چار ماہ دس دن عدتِ وفات پوری کرے، اس کے بعد وہ اپنے ولی کے مشورے سے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
حضرت سعید بن مسیب کی روایت
حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا:
أیما إمراۃ فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فانھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل
(موطا امام مالک، باب عدة التی تفقد زوجھا، ص523)
یعنی جس عورت کا شوہر گم ہو جائے اور اس کا پتہ معلوم نہ ہو، تو جس دن سے اس کی خبر بند ہو، اس دن سے عورت چار برس انتظار کرے، پھر چار ماہ دس دن عدت گزارے اور اس کے بعد چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔
سعید بن مسیب اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف
◄ صحیح بخاری میں سعید بن مسیب تابعی کا فتویٰ یہ ہے کہ عورت گمشدگی کے ایک برس بعد نکاح کر سکتی ہے۔
◄ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی اسی کے قائل ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
قال ابن المسیب إذا فقد فی الصف عند القتال تربص إمراته سنة
(الجامع الصحیح، ج2، ص797، باب حکم المفقود فی اھله وماله)
یعنی ابن مسیب نے فرمایا: اگر کوئی سپاہی میدانِ جنگ میں گم ہو جائے تو اس کی بیوی ایک برس انتظار کرے۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی ایک لونڈی کے مالک کے گم ہو جانے پر ایک برس تک انتظار کیا تھا (الجامع الصحیح، ج2، ص797)۔
امام بخاری ؒ کا رجحان
امام بخاری ؒ کا رجحان بھی ایک سال کے انتظار کی طرف محسوس ہوتا ہے۔
◄ موجودہ دور کے لحاظ سے یہ رائے قرین قیاس بھی ہے کیونکہ آج مواصلات کے ذرائع (اخبار، ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ) بہت وسیع اور مضبوط ہیں۔
◄ اس جدید دور میں کسی شخص کی گمشدگی کی خبر ایک سال میں نہ ملے تو مزید انتظار بظاہر ضروری نہیں۔
قدیم اور جدید فتویٰ کا فرق
◄ حضرت عمر فاروق ؓ کا فتویٰ اس دور سے تعلق رکھتا تھا جب ذرائع مواصلات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس لیے چار برس کا انتظار مقرر کیا گیا۔
◄ موجودہ دور میں ایک سال کا انتظار کافی معلوم ہوتا ہے۔
◄ البتہ جمہور علما اور مفتیان کے نزدیک حضرت عمر ؓ کا فتویٰ اب بھی اپنی جگہ معتبر اور رائج ہے۔
نتیجہ
لہٰذا:
◈ قدیم فتویٰ: چار برس + چار ماہ دس دن (جمہور علما کے مطابق)۔
◈ جدید رائے: ایک برس کافی ہے (امام بخاری، سعید بن مسیب اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے مطابق)۔