سوال:
زنا پر کوئی گواہ موجود نہیں، مگر زانی اقرار کرتا ہے، تو کیا حد شرعی قائم ہو سکتی ہے؟
جواب:
زانی خود اقرار کر لے تو زنا کی حد شرعی قائم ہوگی، مگر اس صورت میں پوری جانچ کر لینی چاہیے کہ وہ نشے میں تو اقرار نہیں کر رہا یا کسی کے دباؤ میں خود کو مجرم تو نہیں بتا رہا۔ اگر وہ ہوش و حواس میں زنا کا اقرار کر لے تو اس پر حد نافذ کر دی جائے۔
❀ جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں:
اسلم قبیلے کا ایک آدمی (ماعز بن مالک) رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے زنا کا اعتراف کیا، پھر اس نے دوبارہ اعتراف کیا، تو آپ نے منہ موڑ لیا، اس نے پھر اعتراف کیا، تو آپ نے پھر منہ موڑ لیا، حتی کہ اس نے اپنے خلاف چار بار گواہی دی، تو نبی کریم نے اس سے پوچھا: کیا آپ دیوانے ہو؟ اس نے کہا: نہیں! آپ نے دریافت کیا: کیا آپ شادی شدہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے اس کے متعلق حکم فرمایا، تو اسے عید گاہ میں سنگسار کیا گیا۔ جب پتھروں نے اسے تکلیف پہنچائی، تو وہ بھاگ اٹھا، چنانچہ اسے پکڑ کر رجم کر دیا گیا، حتی کہ وہ مر گیا، نبی کریم نے اس کے متعلق اچھے خیالات کا اظہار کیا لیکن اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
(صحيح البخاري: 6820، صحيح مسلم: 16/1691، مختصرًا)
❀ عمران بن حصین بیان کرتے ہیں:
جہینہ قبیلے کی ایک عورت نے نبی کریم کے پاس آکر زنا کا اقرار کیا اور کہنے لگی: میں حاملہ ہو چکی ہوں، نبی کریم نے اس کے ولی کو بلا کر فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا، جب بچہ پیدا ہو جائے، تو مجھے بتانا۔ چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا۔ نبی کریم کے حکم سے اس عورت کے کپڑے اس پر مضبوطی سے باندھ دیے گئے، پھر آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اسے رجم کر دیا گیا، پھر آپ نے اس کا جنازہ پڑھایا۔ عمر کہنے لگے: اللہ کے رسول! آپ نے اسے رجم کیا، پھر اس کا جنازہ بھی پڑھا دیا؟ فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر آدمیوں کے درمیان تقسیم کر دی جائے، تو انہیں بھی کافی ہو جائے، کیا آپ نے اس سے بہتر توبہ کبھی پائی ہے کہ اس نے اللہ کی خاطر اپنی جان ہی قربان کر دی ہے۔
(صحيح مسلم: 1696)