آیتِ نساؤکم حرث لکم سے پچھلی شرمگاہ میں جماع کا جواز؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتی کو جس طرح چاہو آؤ، سے بعض لوگ پچھلی شرمگاہ میں جماع کا جواز پیش کرتے ہیں، یہ استدلال کیسا ہے؟

جواب:

نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر فرمان باری تعالی نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتی کو جس طرح چاہو آؤ، کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
نزلت في اتيان النساء في ادبارهن
یہ آیت کریمہ عورتوں سے پچھلی جانب سے جماع کرنے کے بارے میں نازل ہوئی۔
(تفسير الطبري: 751/3، وسنده صحيح)
❀ عبد اللہ بن عمر کے بارے میں ہے:
كان لا يرى باسا ان ياتي الرجل امراته في دبرها
آپ عورت کی پشت کی طرف سے جماع کرنے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔
(السنن الكبرى للنسائي: 8931، وسنده حسن)
ان روایات سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ عبد اللہ بن عمر غیر فطری مجامعت جائز سمجھتے تھے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے سے آگے والی شرمگاہ میں جماع کرنا جائز ہے۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ سعید بن سیار بن ابی حباب بیان کرتے ہیں:
قلت لابن عمر انا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال ناتيهن في ادبارهن قال او يعمل هذا مسلم
میں نے عبد اللہ بن عمر سے عرض کیا ہم لونڈیاں خریدتے ہیں اور ان سے تحمیض کرتے ہیں، پوچھا تحمیض کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ ہم ان کی پشت میں جماع کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کیا کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے؟
(السنن الكبرى للنسائي: 8979، شرح مشكل الآثار للطحاوي: 426/15، وسنده صحيح)
اب اس کے متعلق علمائے کرام کی تحقیق ملاحظہ ہو:
❀ ابن الجوزی (597ھ) فرماتے ہیں:
بعض لوگ بیوی سے غیر فطری مجامعت کو جائز سمجھتے ہیں، وہ اس آیت اور اس بارے میں عبد اللہ بن عمر کی تفسیر سے دلیل لیتے ہیں، حالانکہ نہ آیت میں کوئی دلیل ہے اور نہ ہی ابن عمر کی تفسیر میں کوئی واضح لفظ ہے۔
(كشف المشكل: 582/2)
❀ ابن قیم (751ھ) لکھتے ہیں:
جس نے سلف اور ائمہ سے اس فعل بد کی اباحت بیان کی ہے، اسے یہاں سے غلطی لگی ہے۔ جبکہ سلف نے پشت کی جانب سے اگلی شرمگاہ میں مجامعت کا جواز پیش کیا ہے، چنانچہ مرد پچھلے حصے سے جماع کرے گا، نہ کہ پچھلے حصے میں۔ سننے والے کو سے کا لفظ میں کے ساتھ مشتبہ ہو گیا، وہ دونوں میں فرق نہیں سمجھ سکا۔ سلف اور ائمہ دین نے اس صورت کو جائز قرار دیا ہے لیکن غلط بیانی کرنے والے نے ان کی طرف فتیح ترین اور مخش ترین بات منسوب کی ہے۔
(زاد المعاد: 261/4)
❀ ابن کثیر (774ھ) لکھتے ہیں:
هذا محمول على ما تقدم وهو انه ياتيها في قبولها من دبرها لما رواه النسائي
عبد اللہ بن عمر کی روایت کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کی پچھلی جانب سے اس کی اگلی شرمگاہ میں جماع کر سکتا ہے، جیسا کہ نسائی نے ان سے روایت بیان کی ہے۔
(تفسير ابن كثير: 526/1)
❀ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
عبد اللہ بن عمر سے ایک دوسری روایت بھی آئی ہے کہ عورتوں کی پشتوں میں جماع کرنا حرام ہے۔ ان سے رخصت کے بارے میں جو روایات آئی ہیں، وہ صحیح بھی ہوں، تو صریح نہیں۔ بلکہ احتمال ہے کہ آپ کی مراد یہ تھی کہ پچھلی جانب سے اگلی شرمگاہ میں جماع کرنا جائز ہے۔ ہم نے اس مسئلہ کو ایک مفید کتاب میں واضح کر دیا ہے۔ کوئی عالم اگر اس کا مطالعہ کرے گا، تو ضرور اس کی حرمت کا فیصلہ کرے گا۔
(سير أعلام النبلاء: 100/5)
❀ ابن کثیر (774ھ) فرماتے ہیں:
هو الثابت بلا شك عن عبد الله بن عمر انه يحرمه
بے شک عبد اللہ بن عمر سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ اس فعل کو حرام سمجھتے تھے۔
(تفسير ابن كثير: 533/1)
نص صريح منه بتحريم ذلك فكل ما ورد عنه مما يحتمل ويحتمل فهو مردود الى هذا المحكم
عبد اللہ بن عمر سے اس فعل کی حرمت کے بارے میں صریح نص موجود ہے، لہذا جو کچھ اس بارے میں محتمل ہے، اسے محکم کی روشنی میں سمجھیں گے۔
(تفسير ابن كثير: 533/1)
❀ عبدالرحمن بن سابط کہتے ہیں:
میں نے ابو بکر کی پوتی حفصہ بنت عبدالرحمن سے عرض کیا آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، مگر شرم آڑے ہے۔ فرمایا بیٹا جو چاہیں پوچھیں، عرض کیا مجھے غیر فطری مجامعت کے متعلق پوچھنا ہے، فرمایا مجھے ام سلمہ نے بتایا کہ انصار اپنی عورتوں کو اوندھا لٹا کر جماع نہیں کرتے تھے، جبکہ مہاجرین کرتے تھے۔ ایک مہاجر نے انصاریہ سے نکاح کیا اور اسے مجامعت کے لئے اوندھا لیٹنے کا کہا، تو وہ انکاری ہوئی اور ام سلمہ کے پاس آکر ماجرا سنایا۔ نبی کریم تشریف لائے، تو انصاریہ شرم سے باہر چلی گئی۔ ام سلمہ نے یہ بات نبی کریم کو بتائی، تو آپ نے فرمایا اسے بلائیں، بلایا گیا، تو آپ نے یہ آیت پڑھی نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ اور فرمایا جماع کا تو ایک ہی راستہ ہے۔
(سنن الدارمي: 1159، مسند الإمام أحمد: 305/6، تفسير الطبري: 92/2، وسنده حسن)
❀ بغوی رحمہ اللہ (510ھ) فرماتے ہیں:
اتفق اهل العلم على انه يجوز للرجل اتيان زوجته في قبولها من جانب دبرها وعلى اي صفة شاء
اہل علم کا اتفاق ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے پیچھے سے اگلی شرمگاہ میں جماع کر سکتا ہے، اس کے علاوہ بھی کوئی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
(شرح السنة: 106/9)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے