رضاعی بہن کے ساتھ نکاح کا شرعی حکم – کیا بھائی کے لیے جائز ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج ۱، ص ۷۴۵

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام کہ نزیر نامی لڑکے نے فاطمہ نامی عورت کا دودھ پیا ہے، جب کہ اس فاطمہ بی بی کی بیٹی زبیدہ جوان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس زبیدہ نامی لڑکی کا نکاح نزیر کے دوسرے بھائی بشیر کے ساتھ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ یاد رہے کہ بشیر نے فاطمہ کا دودھ نہیں پیا۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال، مسئلہ کی وضاحت یہ ہے کہ رضاعت کا رشتہ نسبی رشتہ کی طرح وسیع اور متعدی نہیں ہوتا، بلکہ صرف دودھ پینے والے بچے تک ہی محدود رہتا ہے۔

یعنی:
◈ رضاعی ماں کی بیٹی صرف اسی لڑکے کی رضاعی بہن ہوگی جس نے اس کا دودھ پیا ہو۔
◈ وہ لڑکے کے دوسرے بھائیوں کی بہن نہیں ہوگی، کیونکہ انہوں نے اس عورت کا دودھ نہیں پیا۔

دلائلِ فقہاء و محدثین

قول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر حدیث
«الرَّضَاعَةُ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الْوِلَادَةُ»
کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں:

وَلَا يَتَعَدَّى التَّحْرِيمُ إِلَى أَحَدٍ مِنْ قَرَابَةِ الرَّضِيعِ فَلَيْسَتْ أُخْتُهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ أُخْتًا لِأَخِيهِ وَلَا بِنْتًا لِأَبِيهِ إِذْ لَا رَضَاعَ بَيْنَهُمْ وَالْحِكْمَةُ فِي ذَلِكَ أَنَّ سَبَبَ التَّحْرِيمِ مَا يَنْفَصِلُ مِنْ أَجْزَاءِ الْمَرْأَةِ وَزَوْجِهَا وَهُوَ اللَّبَنُ فَإِذَا اغْتَذَى بِهِ الرَّضِيعُ صَارَ جُزْءًا مِنْ أَجْزَائِهِمَا فَانْتَشَرَ التَّحْرِيمُ بَيْنَهُمْ بِخِلَافِ قَرَابَاتِ الرَّضِيعِ لِأَنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمُرْضِعَةِ وَلَا زَوْجِهَا نَسَبٌ وَلَا سَبَبٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

(فتح الباری، شرح صحیح البخاری، ج ۹، ص ۱۷۵، ۱۷۶)

ترجمہ:
رضاعت سے پیدا ہونے والی حرمت دودھ پینے والے بچے کے دوسرے رشتہ داروں تک نہیں پہنچتی، کیونکہ انہوں نے رضاعی ماں کا دودھ نہیں پیا۔

قول امام محی السنہ البغوی رحمہ اللہ

امام بغوی فرماتے ہیں:

ولاالرضاعة على رب الرضيع ولا أخيه ولا تحرم بنت أم أختك من الرضاع إذا كم تكن أما لك ولا زوجة أبيك ويتصور هذا فى الرضاع ولا يتصور فى النسب لك ام أخت إلا وهى أم لك أو زوجة لأبيك

(شرح السنة، ج۵، ص…)

قول مولانا شمس الحق دیانوی رحمہ اللہ

اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

ولا يسر ى التحريم من الرضیع إلى أبائه و أمهاته وإخواته فلأبيه أن ينكح المرضعة

(عون المعود، عون المعبّد شرح سنن ابی داؤد، ج۲، ص۱۷۸)

ترجمہ:
رضاعت سے پیدا ہونے والی حرمت نہ تو دودھ پینے والے بچے کے والد تک پہنچتی ہے اور نہ ہی اس کی ماؤں، بھائیوں یا بہنوں تک۔

حاصلِ مسئلہ

◈ رضاعت کے نتیجے میں حرمت صرف دودھ پینے والے بچے (رضیع) تک محدود رہتی ہے۔
◈ لہٰذا، بشیر (جس نے دودھ نہیں پیا) کے لیے نزیر کی رضاعی بہن زبیدہ سے نکاح کرنا شرعاً جائز ہے۔
◈ اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں۔
◈ البتہ نزیر اپنی رضاعی بہن زبیدہ سے نکاح نہیں کرسکتا، چاہے اس نے اس کے ساتھ دودھ پیا ہو یا بعد میں۔
واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے