سوال
زید کی دو بیویاں ہیں۔ ان میں سے ایک بیوی سے لڑکی پیدا ہوئی، اور اس لڑکی نے اپنی ماں کا دودھ پیا۔ بکر، جو زید کا رشتہ دار ہے، اس نے زید کی دوسری بیوی کا دودھ پیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا زید کی بیٹی اور بکر کے درمیان نکاح جائز ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ سوال کے مطابق بکر، زید کا رضاعی بیٹا بن گیا ہے کیونکہ اس نے زید کی دوسری بیوی کا دودھ پیا ہے۔ دودھ کے رشتے میں میاں بیوی دونوں برابر شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بکر اور زید کی دوسری بیوی کی بیٹی آپس میں رضاعی بہن بھائی ہوئے۔
جس طرح حقیقی بہن بھائی کا نکاح آپس میں حرام ہے، اسی طرح رضاعی بہن بھائی کا نکاح بھی شرعاً حرام ہے۔
احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت
(عن على رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : { إن الله حرم من الرضاع ما حرم من النسب })
(تحفة الاحوذی : ج۲، ص ۱۹۷)
ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے دودھ کے رشتوں کو بھی وہی حرام قرار دیا ہے جو نسب کے رشتے حرام ہیں۔”
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت
(وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : { يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة }هذا حديث حسن صحيح)
(تحفة الاحوذی : ج۲، ص ۱۹۸)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "رضاعت کے رشتے بھی وہی حرام ہیں جو ولادت (نسلی) رشتے حرام ہیں۔”
اس مسئلے میں صحابہ کرام اور تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ
((عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَيَّ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: «إِنَّهُ عَمُّكِ، فَأْذَنِي لَهُ» قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي المَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ عَمُّكِ، فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ»هذا حديث حسن صحيح))
(تحفة الاحوذی : ج۲، ص ۱۹۸)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میرے رضاعی چچا افلح نے گھر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے کہا: "جب تک رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لوں اجازت نہیں دے سکتی۔” جب نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ تمہارے چچا ہیں، انہیں اجازت دو۔”
میں نے عرض کیا: "مجھے تو دودھ عورت نے پلایا ہے، مرد نے نہیں۔”
آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ تمہارے چچا ہیں، انہیں آنا چاہیے۔”
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
(سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ ” رَجُلٍ لَهُ امْرَأَةٌ وَسُرِّيَّةٌ وَلَدَتْ إحْدَاهُمَا غُلَامًا وَأَرْضَعَتْ إحْدَاهُمَا جَارِيَةً ، هَلْ يَصْلُحُ لِلْغُلَامِ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْجَارِيَةَ ؟ قَالَ : لَا ؛ اللِّقَاحُ وَاحِدٌ ” .)
(تحفة الاحوذی : ج۲، ص ۹۸)
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا: ایک شخص کی دو کنیزیں ہیں۔ ایک نے ایک لڑکے کو دودھ پلایا اور دوسری نے ایک لڑکی کو دودھ پلایا۔ کیا ان دونوں کا نکاح آپس میں ہو سکتا ہے؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "نہیں، کیونکہ ان کا تعلق ایک ہی باپ سے ہے (یعنی اصل نطفہ ایک ہے)۔”
نتیجہ
مندرجہ بالا احادیث و آثار کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ:
✿ بکر، زید کا رضاعی بیٹا ہے۔
✿ زید کی دوسری بیوی سے پیدا ہونے والی لڑکی، بکر کی رضاعی بہن ہے۔
✿ لہٰذا ان دونوں کے درمیان نکاح حرام اور ناجائز ہے۔