سوال
ہندہ اور فریدہ دو سگی بہنیں ہیں۔ ہندہ کی گود میں ایک لڑکا دودھ پی رہا ہے اور اسی طرح فریدہ کی گود میں ایک لڑکی دودھ پی رہی ہے۔ ہندہ کسی کام سے بازار چلی جاتی ہے اور اس کی غیر موجودگی میں فریدہ ہندہ کے لڑکے کو دودھ پلاتی رہتی ہے۔ اس طرح ہندہ کا لڑکا اور فریدہ کی لڑکی رضاعی بہن بھائی بن جاتے ہیں۔
اتفاق سے فریدہ کی یہ لڑکی، جو ہندہ کے لڑکے کی رضاعی بہن تھی، انتقال کر جاتی ہے۔ بعد ازاں فریدہ کے ہاں دوبارہ ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندہ کا یہ لڑکا فریدہ کی دوسری بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کا جواب مطلوب ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں یہ واضح ہے کہ فریدہ، ہندہ کے لڑکے کی رضاعی ماں ہے، کیونکہ اس نے اس لڑکے کو دودھ پلایا ہے۔ اس وجہ سے فریدہ کی تمام بیٹیاں اس لڑکے کی رضاعی بہنیں ہیں۔ لہٰذا ہندہ کا یہ لڑکا، جس نے فریدہ کا دودھ پیا ہے، فریدہ کی کسی بھی بیٹی سے نکاح نہیں کر سکتا، خواہ انہوں نے ایک ساتھ دودھ پیا ہو یا الگ الگ۔
دلیل قرآن سے:
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں:
﴿وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ … ٢٣﴾…النساء
یعنی:
> "دودھ کی تمام بہنیں اپنے رضاعی بھائی کے لیے حرام ہیں۔ ان کے درمیان نکاح نہیں ہو سکتا۔”
دلیل حدیث سے:
حدیث شریف میں ہے:
(يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ)
(کتب حدیث)
یعنی:
"رضاعت (دودھ پینے) کی وجہ سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب (پیدائش) کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔”
لہٰذا، ہندہ کا وہ لڑکا جس نے فریدہ کا دودھ پیا ہے، فریدہ کی کسی بھی بیٹی سے نکاح نہیں کر سکتا۔
البتہ اگر ہندہ کے دیگر بیٹے ہیں جنہوں نے فریدہ کا دودھ نہیں پیا، تو وہ فریدہ کی بیٹیوں سے نکاح کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کے درمیان نہ نسلی اور نہ ہی رضاعی طور پر ایسا کوئی تعلق موجود ہے جو نکاح کو حرام بناتا ہو۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب