ایجاب و قبول کے بغیر نکاح کا حکم – شرعی رہنمائی
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد ۱، صفحہ ۷۳۱

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان شرح اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بار بار یہ کہا:
"تم میری بیٹی ہو، بھانجی ہو اور بہن ہو، تم مجھ پر حرام ہو۔ ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ گناہ کیا کیونکہ میں نے تمہیں نکاح میں قبول ہی نہیں کیا۔”

اس کے بعد زید اور اس کی بیوی کے درمیان مکمل علیحدگی ہو گئی۔ اس کے بعد بیوی نے فسخِ نکاح کا کیس عدالت عالیہ میں دائر کیا۔ عدالت میں بیان قلمبند ہوتے وقت بیوی نے اپنے شوہر کو کہا:
"تم میرے باپ اور بھائی ہو، میں تم پر حرام، حرام، حرام ہو چکی ہوں اور میں تیرے منہ پر تھوکتی ہوں۔”

سوال یہ ہے کہ اس عورت کا نکاح باقی رہا یا ختم ہو گیا؟ قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح حل کیا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

✿ صورت مسئولہ میں شرعاً نکاح ہوا ہی نہیں۔
✿ نکاح کی صحت کے لیے ایجاب و قبول بنیادی شرط ہے، کیونکہ نکاح کا رکنِ اساسی ہی ایجاب و قبول ہے۔
✿ نکاح کا معنی ہی ایجاب و قبول ہے۔ اگر یہ دونوں نہ ہوں تو نکاح کس طرح ثابت ہو سکتا ہے؟

جیسا کہ درج ذیل کتب میں ہے:

فتاویٰ اہل حدیث، جلد ۲، صفحہ ۴۶۱
فقہ السنہ، جلد ۲، صفحہ ۲۹:
(يقول الفقهاء أن أركان الزواج الإيجاب والقبول)

وضاحت

✿ سوال میں صراحت کے مطابق اس نام نہاد شوہر نے یا اس کے وکیل نے عورت کو بطور بیوی قبول ہی نہیں کیا۔ لہٰذا نکاح کا انعقاد ہوا ہی نہیں۔
✿ اس شوہر کا اپنی منسوبہ عورت کو بیٹی، بھانجی یا بہن کہنا محض بے ہودہ اور فضول بکواس ہے۔
✿ اسی طرح اس عورت کا اس شخص کو باپ یا بھائی کہنا اور عدالت میں یہ سب کچھ دہرانا بھی فضول اور بےکار کاروائی ہے، جس کا کوئی شرعی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
✿ اس عرصے میں ان دونوں کا بطور میاں بیوی آباد رہنا شرعاً صرف سفاح (زنا) کے مترادف ہے۔

تنبیہ

یہ جواب محض ایک شرعی سوال کا جواب ہے۔ اس کی توثیق مجاز اتھارٹی سے ضروری ہے۔
مفتی کسی قانونی سقم یا عدالتی کاروائی کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے