سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے خاوند نے میری والدہ کے ساتھ زنا کر لیا تو مولوی حضرات نے فتویٰ دیا کہ تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے اور تم اپنے خاوند پر حرام ہوگئی ہو۔ اس کے بعد میرے خاوند نے مجھے زبانی اور تحریری طلاق دے دی۔ طلاق کے تین ماہ بعد میں نے ایک دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ عرصہ ۴/۲ سال گزرنے کے بعد اس نے بھی مجھے طلاق دے دی۔ اس کے نطفہ سے ایک بچہ ہے جس کی عمر ۴/۲ سال ہے، اور وہ بچہ میرے پاس ہے۔ طلاق کو ۴/۱ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب میں اپنے پہلے خاوند کی طرف جانا چاہتی ہوں یعنی پہلے خاوند سے نکاح کرنا چاہتی ہوں۔ میرے لئے شریعت میں کیا حکم ہے؟ فتویٰ دے کر ثواب دارین حاصل فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زنا اور حرمتِ مصاہرت کا مسئلہ
صورت مسئولہ میں، قرآن مجید میں
﴿حُرِّمت عليكم أمهاتكم وبناتكم … والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم﴾
تک پندرہ رشتے حرام کیے گئے ہیں۔ بیوی کی والدہ (ساس) کے ساتھ بدکاری کرنے کی صورت میں بیوی کو ان میں ذکر نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان حرام رشتوں کے ذکر کے بعد فرمایا:
﴿أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ﴾ (النساء: 24)
ترجمہ: ’’ان رشتوں کے علاوہ عورتیں تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ساس سے زنا کرنے کی وجہ سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔ جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔
البتہ حنفیہ کے نزدیک بیوی حرام ہوجاتی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک جیسے نکاح سے اصول و فروع (والدہ، نانی، بیٹی، پوتی وغیرہ) حرام ہوجاتے ہیں، اسی طرح زنا سے بھی۔ مگر یہ مذہب قرآن و حدیث کے مخالف ہے، لہٰذا صحیح نہیں۔
دلائل احادیث سے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُتْبِعُ الْمَرْأَةَ حَرَامًا أَيَنْكِحُ ابْنَتَهَا، أَوْ يُتْبِعُ الِابْنَةَ حَرَامًا أَيَنْكِحُ أُمَّهَا؟ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ، إِنَّمَا يُحَرِّمُ مَا كَانَ بِنِكَاحٍ حَلَالٍ” (السنن الکبریٰ للبیہقی، ج7 ص169۔ فتح الباری، ج9 ص191)
یعنی: ’’حرام، حلال کو حرام نہیں کرتا۔ حرمتِ مصاہرت صرف نکاح سے ثابت ہوتی ہے۔‘‘
—
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حَدِيث بن عُمَرَ لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ (سنن ابن ماجہ، ج1 ص146۔ فتح الباری، ج9 ص194)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حرام، حلال کو حرام نہیں کرتا۔‘‘
—
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي رَجُلٍ غَشِيَ أُمَّ امْرَأَتِهِ قَالَ: "تَخَطَّى حُرْمَتَيْنِ، وَلَا تُحَرَّمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ” (السنن الکبریٰ، ج7 ص168)
یعنی ایک شخص نے اپنی ساس سے زنا کیا، تو ابن عباسؓ نے فرمایا: اس نے حرمتوں کی پامالی کی لیکن اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوئی۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فرمایا: ’’اس کی سند صحیح ہے۔‘‘ (فتح الباری، ج9 ص134)
علماء کے اقوال
✿ الشیخ محمد سابق المصری فرماتے ہیں:
"وأحل لكم ما وراء ذالكم” میں اللہ تعالیٰ نے صرف نکاح سے ثابت حرمت بیان فرمائی ہے، زنا کو اس میں شامل نہیں کیا۔ (فقہ السنہ، ج2 ص65)
✿ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
جمہور علماء کا موقف ہے کہ زنا سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ نکاح عقد کا نام ہے، محض وطی (جماع) کا نہیں۔ زنا میں نہ مہر لازم آتا ہے، نہ عدت ہوتی ہے، نہ میراث۔ (فتح الباری، ج9 ص195)
نتیجہ
مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہوا کہ:
◈ ساس سے زنا کی وجہ سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔
◈ نکاح قائم رہتا ہے۔
◈ حنفیہ کا قول کمزور ہے اور ناقابلِ عمل ہے۔
◈ لہٰذا جن علما نے بیوی کو حرام قرار دے کر فتویٰ دیا، ان کا فتویٰ غلط تھا۔
چونکہ آپ کے شوہر نے آپ کو بعد میں طلاق دی تھی، اس لیے آپ کا نکاح طلاق کی وجہ سے ٹوٹا، زنا کی وجہ سے نہیں۔
دوسرے نکاح کے بعد عدت کا مسئلہ
اب آپ کے دوسرے شوہر نے بھی آپ کو طلاق دے دی ہے۔ سوال کے مطابق طلاق کو صرف ۴/۱،۱ ماہ ہوئے ہیں، اس لیے عدت ابھی پوری نہیں ہوئی۔
✿ غیر حاملہ عورت کی عدت: تین حیض ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ …﴾ (البقرۃ: 228)
✿ حاملہ عورت کی عدت: وضع حمل ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ …﴾ (الطلاق: 4)
لہٰذا جب تک تین حیض مکمل نہ ہو جائیں (یا اگر حمل ہے تو وضع حمل نہ ہو جائے)، اس وقت تک آپ اپنے پہلے شوہر سے نکاح نہیں کرسکتیں۔
خلاصہ حکم
➊ ساس سے زنا کی وجہ سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔
➋ آپ کے پہلے شوہر سے نکاح طلاق کی وجہ سے ختم ہوا، زنا کی وجہ سے نہیں۔
➌ دوسرے شوہر کی طلاق کے بعد عدت پوری کرنا ضروری ہے۔
➍ عدت (تین حیض یا وضع حمل) پوری ہونے کے بعد آپ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہیں۔
➎ حنفیہ کا فتویٰ اس بارے میں صحیح نہیں، لہٰذا اس پر عمل لازم نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب