طلاق قبل از رخصتی کے بعد نیا نکاح: شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص725

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ایک شخص مسمی محمد عباس کے بارے میں کہ اس نے اپنی منکوحہ عائشہ صدیقہ کو قبل از رخصتی نوٹس طلاقِ ثلاثہ (طلاق+طلاق+طلاق) بطرف چیئرمین ثالثی کونسل پتوکی بھیج دیا۔ عائشہ صدیقہ نکاح سے پہلے جس طرح اپنے والدین کے گھر رہتی تھی، بعد از طلاق بھی وہ اپنے والدین کے گھر ہی رہی۔ طلاق کے چودہ ماہ بعد دونوں فریقین صلح پر راضی ہوگئے۔ کیا عائشہ صدیقہ تجدیدِ نکاح کے ساتھ محمد عباس کے گھر آباد ہوسکتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کے مطابق یہ صورت بائن طلاق بینونہ صغریٰ کی ہے، کیونکہ طلاق قبل از رخصتی ہوئی ہے۔ اور شریعت میں قبل از رخصتی طلاق کی صورت میں مطلقہ پر کوئی عدت لازم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا … ٤٩﴾
(الأحزاب)

لہٰذا اب نیا نکاح شرعاً درست ہے۔

السید محمد سابق المصری اس حوالے سے لکھتے ہیں:

(وللزوج أن يعيد المطلقة طلاقا بائنا بينونة صغرى إلى عصمته بعقد ومهر جديدين، دون أن تتزوج زوجا آخر،)
(فقه السنة، ج۲، ص۲۳۷)

یعنی شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بائنہ صغریٰ مطلقہ کو نئے عقد اور نئے مہر کے ساتھ دوبارہ اپنی زوجیت میں لے سکتا ہے، اور اس کے لیے مطلقہ کا کسی اور سے نکاح (حلالہ) کرنا ضروری نہیں۔

پس صورتِ مسئولہ میں بغیر حلالہ کے نیا نکاح شرعاً جائز ہے اور یہ نکاح بلا شک و شبہ ایک صحیح اور شرعی نکاح ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے