سوال
عرض ہے کہ میرے خاوند کو تقریباً آٹھ سال سے غائب ہوئے ہیں۔ وہ نشہ کرتا تھا اور اس کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ اس کے وارثوں سے بھی معلومات حاصل کی ہیں، لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اس کا کچھ پتہ نہیں۔ میرے تین چھوٹے بچے ہیں اور بچوں کی پرورش میں شدید دشواری پیش آرہی ہے، اسی لیے میں نکاح کرنا چاہتی ہوں۔ اس سلسلے میں مجھے شرعی فتویٰ درکار ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نکاح کے لیے ولی کی اجازت کی ضرورت
◈ عورت خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی دوسری عورت کا ولی بن سکتی ہے۔
◈ نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے۔
صحیح بخاری میں اس موضوع پر باب موجود ہے:
بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} (صحیح بخاری، ج 2، ص 769)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ:
◈ نکاح کی صحت ولی کی اجازت پر موقوف ہے۔
◈ خواہ عورت بیوہ ہو یا کنواری، ولی کا اختیار لازم ہے۔
◈ اگر ولی کا کوئی اختیار نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو ان آیات میں حکم کیوں دیا؟
◈ لہٰذا ان تینوں آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ہوگا۔
احادیث مبارکہ سے دلائل
➊ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولي کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
یہ حدیث صحیح ہے اور جمہور علماء کے نزدیک نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت لازمی ہے۔
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ كَانَ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا (اخرجه الاربعة الا النسائی وصححه ابو عونه ابن حبان والحاکم، قال ابن کثیر وصححه یحی بن معین وغیرہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
◈ جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔
◈ اگر شوہر نے دخول کرلیا ہے تو عورت کو مہر ملے گا۔
—
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا (رواہ ابن ماجہ والدارقطنی ورجاله ثقات۔ سبل السلام، ج 3، ص 120)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
◈ کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے۔
◈ اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرسکتی ہے۔
علماء کی شرح
امام محمد بن اسماعیل الامیر الایمانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
فیه دلیل علی ان لمراة لیس لھا ولایة فی الانکاح لنفسھا ولا لغیر ھا فلا عبارة لھا فی النکاح ایجابا ولا قبولا ولا تزوج نفسھا باذن الولی ولاغیرہ ولا غیرھا بولایة. (سبل السلام، ج 3، ص 120)
یعنی:
◈ عورت کو حقِ ولایت حاصل نہیں ہے۔
◈ نہ وہ اپنا ولی بن سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا ولی۔
◈ نہ وہ خود اپنا نکاح کرسکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا نکاح ولی بن کر کرسکتی ہے۔
◈ اس کی ولایت میں کیا گیا نکاح شرعاً ناقابلِ اعتبار ہوگا۔
نتیجہ
◈ بشرطِ صحت سوال، مسمات نذیراں بی بی دختر غلام قادر ساکن 14 آڑ کا نکاح بالکل منعقد نہیں ہوا۔
◈ اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ یعنی ولیِ اقرب کی اجازت موجود نہیں تھی، اور نہ ہی باپ کو اس نکاح کا علم تھا۔
◈ نذیراں کی پھوپھی کا یہ اقدام شریعت کے سراسر خلاف ہے۔
◈ ایسی صورت میں نکاح غیر شرعی ہوگا اور عدالت سے توثیق بھی ضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب