سوال
کیا صحتِ نکاح کے لیے لڑکی کی رضا مندی شرعاً ضروری ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس لڑکی کا نکاح کیا جانا ہو، اس کی اجازت اور رضا مندی شرعاً لازمی ہے۔ اگر نکاح اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر کر دیا جائے تو ایسا نکاح درست نہیں ہوگا۔
احادیث سے دلائل
حدیث 1
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، حَدَّثَهُمْ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»)
(بخاری، ج۲، ص ۷۷۱، باب لا ینکح الا ب وغیرہ البکر والثیب الابرضا ھا)
یعنی: بیوہ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے صاف طور پر اجازت نہ لی جائے، اور کنواری کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ ہو۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! کنواری کی اجازت کس طرح ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔
حدیث 2
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اليَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا، فَإِنْ صَمَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا، وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا»، يَعْنِي: إِذَا أَدْرَكَتْ فَرَدَّتْ. وَفِي البَاب عَنْ أَبِي مُوسَى، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ.: -[410]- «حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ».)
(اخرجه الخمسة الا ابن ماجہ و اخرجه ایضا ابن حبان و الحاکم)
(تحفة الاحوذی، ج۲، ص۱۸۱، باب مَا جاء فی اکراه اليتیمة علی التزویج)
یعنی: کنواری لڑکی سے نکاح کے بارے میں اس کی رائے لی جائے۔ اگر وہ خاموش رہے تو یہی اس کی اجازت ہے، اور اگر انکار کردے تو زبردستی اس پر نکاح جائز نہیں۔
حدیث 3
حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
(عَنْ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ الأَنْصَارِيَّةِ: أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ «فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَهَا»)
(صحیح بخاری، ج۲، ص۷۷۱، باب اذا زوج ابنته و ھی کارھة فنکاحھا مردود)
یعنی: ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا، حالانکہ وہ بیوہ تھیں اور اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپ نے ان کا نکاح منسوخ کر دیا۔
حدیث 4
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ «أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».)
(ابو داؤد، ج۱، ص۲۸۵، باب فی البکر یذوجھا ابو ھا ولا یستأ مرھا)
یعنی: ایک کنواری لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے، حالانکہ وہ ناپسند کرتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ چاہے نکاح باقی رکھے یا رد کر دے۔
خلاصہ
ان تمام صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:
❀ نکاح کے لیے لڑکی کی اجازت شرعاً ضروری ہے۔
❀ اگر لڑکی کی رضا مندی کے بغیر نکاح کیا جائے تو ایسا نکاح درست اور صحیح نہیں ہوتا۔
❀ کنواری لڑکی کا خاموش رہنا اس کی اجازت ہے، جبکہ انکار کی صورت میں زبردستی نکاح جائز نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب