سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی نور محمد ولد محمد خاں قوم مسلم شیخ ساکن مکھن پورہ نزد سوئے وانیکسول لاہور یہ حلفیہ بیان کرتا ہے کہ:
تقریباً چار ماہ قبل نور محمد قوم مسلم شیخ ساکن واہلہ تحصیل و ضلع شیخوپورہ نے میری حقیقی بیٹی ریحانہ کا نکاح اپنے بیٹے محمد الیاس کے ساتھ میرے علم و اجازت کے بغیر پڑھوا دیا۔
پوچھا یہ جاتا ہے کہ ازروئے شریعت یہ نکاح درست ہے یا نہیں؟ براہِ کرم فرمانِ رسول ﷺ کی روشنی میں جواب مرحمت فرمایا جائے تاکہ عند اللہ ماجور ہوں۔ اگر اس سوال میں کوئی غلط بیانی ہو تو اس کا ذمہ دار صرف سائل ہوگا۔
تصدیق
ہم اس سوال کی حرف بہ حرف حلفاً تصدیق کرتے ہیں کہ یہ سوال حقیقت پر مبنی ہے۔ اگر بعد میں یہ غلط ثابت ہوا تو اس کی پوری ذمہ داری ہم پر ہوگی۔ لہٰذا شرعی فتویٰ صادر فرمایا جائے:
1. غوث ولد عبداللہ قوم شیخ ساکن مکھن پورہ لاہور
2. محمد ولد احمد دین قوم مسلم شیخ ساکن مکھن پورہ لاہور
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال اور بشرط صحت و صدق گواہان، مذکورہ مسئلہ کی روشنی میں واضح ہے کہ:
شرعاً یہ نکاح منعقد نہیں ہوا کیونکہ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے شرعی ولی (باپ وغیرہ) کی اجازت ناگزیر ہے۔ اگر ولی کی اجازت نہ ہو تو نکاح درست نہیں ہوتا۔
چنانچہ صحیح بخاری: ج2 ص769 میں ہے:
(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32])
اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے ولی کو یہ حکم کیوں دیا؟ لہٰذا عورت خواہ کنواری ہو یا شوہر دیدہ، ولی کا حق ولایت بہرحال باقی رہتا ہے۔
احادیث کی روشنی میں
حدیث ۱
(عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ» رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْمَدِينِيِّ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ… )
(سبل السلام : ج۳ ص۱۱۷)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
شرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔
حدیث ۲
وَعَنْ عَائِشَةَ… قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ…»
(سبل السلام : ج۳ ص ۱۱۸)
یعنی: اگر کوئی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔
حدیث ۳
(عن أ َبِي هُرَيْرَةَ «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا»)
(سبل السلام : ج۳ ص۱۲۰)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کوئی عورت کسی عورت کی ولی نہ بنے اور نہ اپنا نکاح خود کرے۔
اقوالِ ائمہ
◈ امام محمد بن اسماعیل الامیر لکھتے ہیں:
عورت کو اپنے یا کسی اور کے نکاح میں ولی بننے کا حق حاصل نہیں۔ اس کی ایجاب و قبول نکاح میں معتبر نہیں۔
(سبل السلام : ج۳ ص۱۲۰)
◈ امام ابن رشد قرطبی فرماتے ہیں:
(اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ هَلِ الْوِلَايَةُ شَرْطٌ … فَذَهَبَ مَالِكٌ … وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ.)
(بدیة المجتہد : ج۴ ص۶،۷)
یعنی امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک ولی کی اجازت نکاح کی صحت کے لیے شرط ہے۔ اگر شرط نہ پائی جائے تو نکاح بھی درست نہیں۔
فیصلہ
چونکہ موجودہ مسئلہ میں (بشرط صحت سوال و واقعہ) ریحانہ دختر نور محمد کا نکاح اس کے والد کی اجازت کے بغیر پڑھا گیا ہے، لہٰذا:
◈ یہ نکاح شرعاً باطل ہے۔
◈ اسے کالعدم سمجھا جائے۔
◈ البتہ عدالتِ مجاز یا کم از کم پنچایت تحقیقات کے بعد اس نکاح کو ختم کرے۔
◈ مفتی اس معاملے میں قانونی پیچیدگی کا ذمہ دار نہ ہوگا، یہ صرف شرعی فتویٰ ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب