شرعی حکم: زبردستی نکاح کا مسئلہ اور ولی کی اجازت کی شرط
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص678

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی محمد یوسف ولد محمد دین قوم کمبوہ چک نمبر ۲/۲۸ تحصیل و ضلع اوکاڑہ سے، تقریباً ایک ماہ اور تین دن قبل نکاح ہوا ہے، جبکہ مسماۃ صرف دس دن تک آباد رہی۔ دورانِ آبادگی مسمی یٰسین نے اس مسماۃ پر نہایت ظلم و ستم کیا۔ یاد رہے کہ اس نکاح کی خبر مسماۃ کے والد کو نہ تھی۔ بلکہ مسماۃ کو اس کی چچی کے بھائی نے ورغلا کر اور زبردستی نکاح کروایا۔ جب والد اور رشتہ داروں کو پتہ چلا تو وہ اس مسماۃ کو واپس لے آئے۔ اب مسماۃ نہایت پریشان ہے اور اپنے والد کے پاس رہ رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا زبردستی کیا گیا نکاح شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ نیز یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا مسماۃ نئے نکاح کی حق دار ہے یا نہیں۔ اگر سوال میں کوئی جھوٹ یا غلط بیانی ہوئی تو اس کی ذمہ داری سائل پر ہوگی۔ لہٰذا ہمیں اس مسئلے پر صحیح شرعی فتویٰ درکار ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحتِ سوال اور صدقِ گواہان، صورتِ مسئولہ میں شرعاً نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس لیے کہ صحتِ نکاح کے لیے ولی کی اجازت شرعاً لازم اور ضروری ہے۔

قرآن کریم سے دلیل

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ … ٢٣٢﴾
[البقرۃ]

’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو تم ان کو ان کے (پہلے) شوہروں سے دوبارہ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ دستور کے مطابق آپس میں راضی ہو جائیں۔‘‘

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ مطلقہ رجعیہ بھی عدت کے بعد اپنے سابقہ شوہر سے نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتی۔

امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال

امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی آیت سے دلیل لیتے ہوئے اپنی صحیح بخاری میں یہ باب قائم کیا:

”من قال لا نکاح الا بولی“

یعنی: نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے۔

انہوں نے اس آیت کو بطور دلیل ذکر فرمایا اور فرمایا:

(فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32])
(صحیح بخاری: ج 2 ص 768)

ان تمام آیات میں نکاح کا اختیار ولی کو دیا گیا ہے۔

احادیثِ رسول ﷺ

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
((لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ))
(احمد، ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، سبل السلام: ج۳ ص۱۱۷)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
امام علی بن مدینی، ترمذی اور ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
((أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، بَاطِلٌ، بَاطِلٌ))
(سبل السلام: ج۳ ص۱۱۷)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
((لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا))
(ابن ماجہ، دارقطنی، نیل الاوطار)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت نہ تو کسی عورت کا نکاح کرے اور نہ اپنا نکاح خود کرے۔ جو عورت خود اپنا نکاح کرے وہ زانیہ ہے۔

عکرمہ بن خالد تابعی کا واقعہ:
انہوں نے بیان کیا کہ ایک قافلے میں ایک بیوہ عورت نے غیر کو اپنا ولی بنایا، اس نے نکاح کر دیا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی تو آپ نے نکاح کرانے والے اور نکاح کرنے والے کو کوڑے لگائے اور نکاح کالعدم قرار دے دیا۔
(شافعی، دارقطنی ج3 ص225، محلی ابن حزم ج9 ص452)

اقوال مفسرین و فقہاء

امام ابن کثیر رحمہ اللہ: اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ عورت اپنے نکاح کی مالک نہیں، بلکہ ولی کی اجازت شرط ہے۔
(تفسیر ابن کثیر: ج۱ ص۲۸۲)

امام محمد بن اسماعیل الامیر: جمہور علماء کے نزدیک ولی کی اجازت شرط ہے اور عورت خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی۔
(سبل السلام ج۳ ص۱۱۷)

امام شوکانی رحمہ اللہ: حضرت عمر، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابو ہریرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اور دیگر فقہاء کے نزدیک ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔ ابن المنذر کے مطابق اس مسئلے میں کسی صحابی کی مخالفت ثابت نہیں۔
(نیل الاوطار: ج۶ ص۱۲۶)

شرعی فیصلہ

مندرجہ بالا آیات، احادیث، آثارِ صحابہ اور اقوالِ فقہاء کی روشنی میں:

◈ یہ نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوا کیونکہ اس میں ولی کی اجازت شامل نہیں تھی۔
◈ بلکہ جیسا کہ تحریر ہے، لڑکی کو اغوا کر کے زبردستی نکاح کروایا گیا، جو سراسر دھوکہ اور جبر ہے۔
◈ لہٰذا ایسا نکاح شرعاً باطل ہے۔
◈ عدالتی کاروائی کے بعد یہ لڑکی نئے نکاح کی شرعاً حق دار ہے۔
◈ اس فتویٰ میں کسی قانونی پہلو کی ذمہ داری مفتی پر نہیں ہوگی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے