والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کی شرعی حیثیت اور باطل نکاح کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 677

سوال

گزارش یہ ہے کہ ایک مسئلہ پر فتویٰ درکار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے ایک دوست نے ایک دوسری برادری کی لڑکی سے اس کے والدین کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر شادی کرلی ہے۔ اب اس لڑکی کے ماں باپ کا مؤقف ہے کہ ہم اس شادی کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنی مرضی سے اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب لڑکی کا پہلے نکاح ہو چکا ہے تو کیا اس صورت میں لڑکی کے والدین کو اختیار ہے کہ وہ اس کا نکاح کسی اور کے ساتھ کریں؟ جبکہ لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہم یہ نکاح نہیں ہونے دیں گے۔ براہ کرم اس مسئلے کی شرعی حیثیت واضح فرما دیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال، مسئلہ کی وضاحت یوں ہے کہ نکاح کے انعقاد کے لیے لڑکی اور اس کے والد یا کسی شرعی اور صحیح ولی کی باہمی رضا مندی اور ہم آہنگی لازمی شرط ہے۔ اگر لڑکی اور اس کے شرعی ولی کی رضا مندی اور ہم آہنگی موجود نہ ہو تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔ اس طرح کا نکاح شرعاً صحیح نہیں کہلائے گا اور اس نکاح کے بعد میاں بیوی کا میل جول سراسر گناہ اور بدکاری کے زمرے میں آئے گا۔

یعنی دوسرے لفظوں میں نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے۔ اس پر صحیح بخاری میں ہے:

(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32]
(صحیح بخاری :ج۲ ص ۷۱۱)

”کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو ان عورتوں کو اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو
(البقرہ: 232)۔ اس سے واضح ہوا کہ ولی کو روکنے کا اختیار ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل نہ فرماتا۔ دوسری دونوں آیات میں بھی ولیوں کو خطاب کیا گیا ہے اور ان کو اختیار دیا گیا ہے۔ پھر امام بخاری نے حضرت معقل بن یسار کی مشہور حدیث بیان کی ہے۔“

اسی طرح حدیث میں آیا ہے:

(وَعَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْمَدِينِيِّ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ وَأَعَلَّهُ بِإِرْسَالِهِ…و هَكَذَا صَحَّحَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ فِيمَا حَكَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ)
(۲: سبل السلام : ج۳ ص۱۱۷)

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔“

ان آیات قرآنیہ اور صحیح حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے۔ بصورت دیگر نکاح شرعاً درست نہیں ہوگا۔

چونکہ صورت مسئولہ میں واضح طور پر ذکر ہے کہ یہ نکاح والد کی اجازت اور مرضی کے بغیر کیا گیا ہے، لہٰذا یہ نکاح غیر شرعی اور باطل ہے۔

البتہ یہ محض شرعی فتویٰ ہے جو بشرط صحت سوال دیا گیا ہے۔ اس کے کسی قانونی پہلو یا عدالتی کارروائی کی ذمہ داری مفتی پر نہیں ہوگی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے