سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیانِ شرع متین کہ میرا بیٹا محمد رفیق ولد عبدالرحمٰن سن 1985ء میں وفات پا گیا، اور وہ چھوٹی چھوٹی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑ گیا۔ میں نے ہی اپنے ان یتیم پوتے پوتیوں کی کفالت اور تربیت کی۔ ان بچیوں کے نانا نے ہرگز ان کی پرورش یا کفالت میں کوئی حصہ نہ لیا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ میری بڑی پوتی جوان ہو چکی ہے اور اس کا نانا اور اس کی والدہ میری اجازت اور مرضی کے خلاف، زبردستی اور دھمکی کے ساتھ، اس کا نکاح ایک بدکردار شخص سے کروا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حقیقی اور مشفق دادا کی موجودگی میں، اس کی اجازت کے بغیر لڑکی کی والدہ یا نانا نکاح پڑھا سکتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا ان کے پڑھایا ہوا نکاح شرعاً صحیح ہوگا یا نہیں؟
شرعی فتویٰ صادر فرمانا نہایت ضروری ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرطِ صحت سوال کے مطابق واضح ہو کہ نکاح ولی (خیر خواہ) کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی موجودگی کے بغیر شرعاً منعقد نہیں ہوتا۔
قرآن مجید سے دلائل
قرآن مجید میں اس کے متعلق متعدد آیات موجود ہیں، مثلاً:
﴿٣٢﴾ النور
وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ …
’’اور تم میں جو مجرد ہوں اور جو تمہارے غلام اور لونڈیاں نیک ہوں، سب کے نکاح کر دو۔‘‘
﴿٢٢١﴾ البقرۃ
وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا …
’’اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘
﴿٢٣٢﴾ البقرۃ
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ …
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ نکاح کے انعقاد کے لئے ولی کی اجازت ضروری ہے۔ اگر ولی کو اختیار شرعاً حاصل نہ ہوتا تو قرآن میں اسے خطاب کرنے کا کوئی جواز باقی نہ رہتا۔
احادیث سے استدلال
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ»
(رواہ احمد و ابو داؤد و الترمذی و ابن حبان والحاکم و صححاہ، فقه السنة : ج۲ ص ۱۱۲)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوتا۔‘‘
قال الحاكم:
وقد صحت الرواية فيه عن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم: عائشة وأم سلمة، وزينب، ثم سرد تمام ثلاثين
(فقه السنة : ج۲ ص ۱۱۳)
یعنی حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ اور حضرت زینبؓ سے بھی یہ صحیح روایت ثابت ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا، اور امام حاکم نے اس موضوع پر تیس احادیث روایت کی ہیں۔
اصل ولی کون ہے؟
اب رہا یہ سوال کہ شریعت میں اصل اور صحیح ولی کون ہے: دادا یا نانا؟
اہلِ حدیث، حنابلہ، شوافع، احناف اور جمہور علماء اسلام کا اجماع ہے کہ:
◄ سب سے پہلا ولی لڑکی کا والد ہے۔
◄ اگر والد وفات پا چکا ہو تو پھر لڑکی کا دادا ولی ہوگا۔
◄ اگر دادا بھی نہ ہو تو پردادا اوپر تک۔
◄ اس کے بعد عورت کا بیٹا، پھر پوتا نیچے تک۔
جیسا کہ العدۃ شرح عمدۃ الاحكام (ص362) میں ہے:
(أولى الناس بتزويج الحرة ابوها ثم ابوه وان علا ثم ابنها ثم ابنه وان نزل)
یعنی آزاد لڑکی کے نکاح کا سب سے پہلا ولی اس کا والد ہے، اگر وہ نہ ہو تو دادا، پھر پردادا، پھر لڑکی کا بیٹا، پھر پوتا، وغیرہ۔
نانا کو حقِ ولایت کیوں نہیں؟
◄ نانا کو شرعاً ولی کا حق حاصل نہیں۔
◄ ولایت کا حق ماں، نانا، نانی یا دادی کو نہیں دیا گیا۔
شرح وقایہ (کتاب فقہ حنفی) میں ہے:
(والولي العصبة على ترتيب الإرث والحجب…الخ)
(فتاویٰ اہل حدیث : ج۲ ص۴۰۷، ۴۰۸)
یعنی نکاح کے باب میں ولایت کا حق عصبات کو ہے (باپ، دادا، پھر چچا وغیرہ)۔ ماں، نانا، نانی کو کوئی حق نہیں۔
اسی طرح دیگر اکابر علماء کے فتاویٰ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں:
◈ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند: والد کے بعد دادا ولی ہے، دادا نہ ہو تو بھائی۔ (ج۱ ص۴۲۹، فتویٰ نمبر ۷۶۷)
◈ مولانا محمد شفیع دیوبندی: نابالغہ کے لئے اگر والد و دادا نہ ہوں تو حقیقی بھائی ولی ہے، ماں یا سوتیلا باپ نہیں۔ (ج۲ ص۵۴۳، فتویٰ نمبر ۴۰۶)
◈ فتاویٰ نزیریہ (سید نزیر حسین دہلوی): یہی رائے مذکور ہے (ص۳۹۹)۔
◈ مفتی عبداللہ روپڑی: عورت کے ولی کا حق صرف باپ کی طرف سے ہوتا ہے، ماں یا نانا کو یہ حق نہیں کیونکہ ان کی قرابت کمزور ہے۔ (شرح وقایہ ج۲)
خلاصہ بحث
◉ قرآن و حدیث کے دلائل اور ائمہ فقہ کے اجماع کے مطابق ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاً نہیں ہوتا۔
◉ والد کی وفات کے بعد، دادا اصل ولی ہے۔
◉ دادا یا چچا کی موجودگی میں، ماں، نانا یا ماموں شرعاً ولی نہیں بن سکتے۔
◉ نانا کا پڑھایا ہوا نکاح شرعاً باطل ہے اور ایسا نکاح درحقیقت نکاح نہیں بلکہ سفاح اور زنا شمار ہوگا۔
لہٰذا لڑکی کے نانا کو اس کام سے باز آنا چاہیے، کیونکہ اس لڑکی کی ولایت نکاح کا حق صرف اس کے دادا عبدالرحمٰن ولد عمر دین کو حاصل ہے، کسی اور کو نہیں۔
مفتی قانونی سقم کا کسی طور ذمہ دار نہ ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب