سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ ایک لڑکی عاقلہ بالغہ کا نکاح اس کے باپ کی اجازت کے بغیر چوری چھپے پڑھا گیا، جبکہ لڑکی کا بھائی اور ماں موجود تھے؟ کیا یہ نکاح شرعی اعتبار سے درست ہے یا باطل؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:
اگر سوال میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے، تو شرعی اصول کے مطابق صحتِ نکاح کے لیے ولیِ اقرب (سب سے قریبی ولی) کی اجازت شرط ہے۔ اگر یہ نکاح ولی کی اجازت کے بغیر انجام دیا گیا ہو، تو یہ نکاح قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے مطابق منعقد ہی نہیں ہوتا۔
دلائل از قرآن
➊ سورۃ النور، آیت 32:
"وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ…”
(النور: 32)
ترجمہ: “تم میں سے جو بے نکاح مرد و عورت ہوں ان کے نکاح کر دیا کرو…”
➋ سورۃ البقرہ، آیت 221:
"وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا…”
(البقرۃ: 221)
ترجمہ: “مشرکین کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں…”
➌ سورۃ البقرہ، آیت 232:
"فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ…”
(البقرۃ: 232)
ترجمہ: “بیوہ عورتوں کو ان کے (سابقہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو…”
ان تینوں آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں، کیونکہ اگر ولیوں کو نکاح میں کوئی اختیار نہ ہوتا تو انہیں ان آیات میں خطاب ہی نہ کیا جاتا۔
دلائل از احادیث
➊ حدیثِ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ:
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ»
(رواه احمد والترمذي وابن حبان والحاكم وصححاه، فقه السنة: ج2، ص112)
ترجمہ: “حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔”
➋ حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ»
(رواه احمد، وابو داؤد، وابن ماجة، والترمذي، وقال حديث حسن صحيح، كذا فى فقه السنة: ج2، ص112)
ترجمہ: “حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔”
ولی کی ترتیب (امام شافعیؒ کے نزدیک)
امام شافعیؒ اور دیگر علماء کے نزدیک ولیوں کی ترتیب اس طرح ہے:
◉ والد
◉ دادا (والد کے والد)
◉ سگا بھائی
◉ علاتی بھائی (صرف والد کی طرف سے)
◉ سگے بھتیجے
◉ علاتی بھتیجے
◉ چچا
◉ چچا کا بیٹا
◉ پھر حاکم
(فقه السنة، ج2، ص117)
فتاویٰ اہل حدیث (فتاویٰ روپڑیہ)
"بہرحال عورت کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ اول نمبر پر والد ہے، بعض اول نمبر پر بیٹے کو کہتے ہیں۔”
(جلد ۳، صفحہ ۴۱۷)
اس وضاحت سے یہ ثابت ہوا کہ والد کی موجودگی میں کوئی دوسرا ولی بن ہی نہیں سکتا۔
مسئلہ مسئولہ کی شرعی حیثیت
- ✿ چونکہ اس معاملے میں لڑکی کے والد کی اجازت نہیں لی گئی بلکہ نکاح چوری چھپے پڑھا گیا، اور صرف ماں اور بھائی موجود تھے،
- ✿ تو شرعی اصول کے مطابق یہ نکاح باطل ہے، کالعدم ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
- ✿ ماں کو ولی بننے کا اختیار ہی نہیں۔
- ✿ بھائی، والد کی موجودگی میں بہن کا ولی نہیں بن سکتا۔
لہٰذا اگر والد عقلمند اور خیرخواہ ہو، تو اس کی اجازت کے بغیر کیا گیا نکاح شرعاً باطل شمار ہوگا۔
یہ جواب صحتِ سوال کے مطابق تحریر کیا گیا ہے۔ مفتی کسی قانونی سقم یا عدالتی کارروائی کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب