نابالغی میں نکاح اور بلوغت پر فسخ کا شرعی اختیار
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج ۱، ص ۶۷۱

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بشیر احمد نامی شخص نے اپنی بیٹی مسماۃ امام حسین عرف فیضاں کی شادی نابالغی کی حالت میں کر دی۔ اب مسماۃ فیضاں اس نکاح سے انکار کر رہی ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں کیا مسماۃ فیضاں کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر سوال درست ہے تو مسماۃ امام حسین عرف فیضاں کو اپنا یہ نابالغی کا نکاح فسخ کرنے کا شرعی حق حاصل ہے، بشرطیکہ ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو۔ اگر ایک بار بھی رخصتی عمل میں آچکی ہے یعنی وہ اپنے شوہر کے بستر پر جا چکی ہے تو پھر اسے فسخ کا حق حاصل نہیں ہے۔ شریعت میں اس حق کو خیارِ بلوغ کہا جاتا ہے۔

چنانچہ صحیح حدیث میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: كَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»
(صحیح بخاری، باب لا لنکح الاب وغیرہ البکر والثوب الاہر قضاھا، ج ۲، ص ۷۷۱)

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے مکمل مشورہ نہ کیا جائے، اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ کنواری کی اجازت کیسے سمجھی جائے؟ فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔“

اس حدیث صحیح سے یہ ثابت ہوا کہ نکاح کی صحت کے لئے لڑکی کی اجازت اور رضا مندی لازمی ہے، خواہ وہ بیوہ ہو یا کنواری۔ نابالغ لڑکی چونکہ عقل و شعور کی کمی کے باعث اجازت دینے کی اہل نہیں ہوتی، اس لئے جب وہ بالغہ ہو جاتی ہے تو اسے اختیار حاصل ہے کہ چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھے یا فسخ کرا دے۔ اس شرعی حق سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

مزید دلائل

حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ «أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
(رواہ احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ۔ سبل السلام: ج ۳، ص ۱۲۲)

”ایک جوان کنواری لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرے والد نے میری رضا کے بغیر میرا نکاح کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اس لڑکی کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ چاہے تو نکاح کو برقرار رکھے یا فسخ کرا دے۔“

اقوالِ محدثین:

❀ حافظ ابن حجر کے مطابق یہ حدیث مرسل ہے۔
❀ مگر امام محمد اسماعیل الکحلانی نے وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث موصول اور قوی ہے کیونکہ مختلف اسانید سے مروی ہے جو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔ (سبل السلام: ج ۳، ص ۱۲۲)

مزید وضاحت فرماتے ہیں کہ:

”عِلَّت صرف اس لڑکی کی کراہت تھی، اسی پر اسے اختیار دیا گیا۔ اس کا حکم عام ہے، جہاں بھی کراہت پائی جائے وہاں یہ حکم ثابت ہوگا۔“
(سبل السلام: ج ۳، ص ۱۲۳)

شیخ الحدیث مولانا شرف الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ:

انہوں نے بھی اس حدیث کو مرفوع اور قوی قرار دیا ہے۔
(فتاویٰ نزیریہ: ج ۳، ص ۱۹۷)

حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:

«عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَتَاةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَقَالَتْ: إنَّ أَبِي زَوَّجَنِي مِنْ ابْنِ أَخِيهِ يَرْفَعُ بِي خَسِيسَتَهُ، وَأَنَا كَارِهَةٌ قَالَتْ: اجْلِسِي حَتَّى يَأْتِيَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَأَخْبَرَتْهُ فَأَرْسَلَ إلَى أَبِيهَا فَدَعَاهُ فَجَعَلَ الْأَمْرَ إلَيْهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ: قَدْ أَجَزْت مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَكِنْ أَرَدْت أَنْ أُعْلِمَ النِّسَاءَ أَنْ لَيْسَ لِلْآبَاءِ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ»
(رواہ النسائی۔ سبل السلام: ج ۳، ص ۱۲۳)

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک لڑکی ان کے پاس آئی اور کہا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے اس لئے کر دیا تاکہ اپنی معاشرتی حیثیت بہتر کرے، حالانکہ مجھے یہ نکاح پسند نہیں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے آنے کا انتظار کرو۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو اس لڑکی نے سارا ماجرا عرض کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے والد کو بلایا اور نکاح کا معاملہ لڑکی کے سپرد کر دیا۔ تب لڑکی نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اپنے والد کے فیصلے کو منظور کیا، لیکن میں چاہتی تھی کہ عورتوں کو معلوم ہو کہ والدین کو اپنی بیٹیوں پر ایسا جبر کا اختیار نہیں۔“

نتیجہ

ان تمام احادیث صحیحہ اور اقوالِ محدثین سے ثابت ہوا کہ:

✿ نابالغی میں والدین کی جانب سے کیا گیا نکاح اس وقت لڑکی کے اختیار پر ہے جب وہ بالغہ ہو جائے۔
✿ اگر بالغہ ہونے کے بعد اس کی رخصتی نہیں ہوئی اور شوہر کے ساتھ خلوت صحیحہ قائم نہیں ہوئی تو اسے اختیار ہے کہ نکاح کو برقرار رکھے یا فسخ کرا دے۔
✿ لہٰذا مسماۃ امام حسین عرف فیضاں کو اپنے نکاح کے بارے میں مکمل اختیار حاصل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے