اسلام میں وٹہ سٹہ نکاح کا حکم اور لڑکی کی رضامندی کا شرعی درجہ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ جلد ۱، صفحہ ۶۶۹

سوال

میں، مسمی عبدالغفور ولد محمد سرور قوم وٹو، رہائشی چک نمبر ۸۵ ڈی، تحصیل نور پور، ضلع پاکپتن، ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں، جو درج ذیل ہے:

میری ہمشیرہ مسمات انور دختر محمد سرور کا نکاح ایامِ نابالغی میں وٹہ سٹہ کی شرط پر ہوا۔ اُس وقت اس کی عمر تقریباً ۸ یا ۹ سال تھی۔ اس کا نکاح مسمی ظفر اقبال ولد محمد قوم وٹو کے ساتھ کیا گیا، لیکن رخصتی تاحال نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ آباد ہوئی ہے۔

مسمات کو اپنے خاوند سے سخت نفرت ہے اور وہ اسے پسند نہیں کرتی۔ اب مسمات کی عمر تقریباً ۲۳ سال ہو چکی ہے۔ چونکہ نکاح بھائی کے وٹہ سٹہ میں ہوا تھا، اس لیے مسمات نے علاماتِ بلوغت حاصل کرنے کے بعد معززین اہل اسلام کے روبرو اس نکاح کو مسترد کردیا ہے اور واضح کہا ہے کہ وہ وٹہ سٹہ کی شرط پر کسی بھی صورت آباد ہونے کے لیے تیار نہیں۔

مسمات کا حق مہر مساوی رکھا گیا تھا، کوئی فرق نہیں تھا۔ مسمات شروع ہی سے اپنے والدین کے پاس رہ رہی ہے۔ میرا سوال علمائے دین سے یہ ہے کہ:

کیا نکاح وٹہ سٹہ اسلام میں جائز ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال، صورتِ مسئولہ میں واضح ہے کہ ازروئے حدیثِ صحیح، صحتِ نکاح کے لیے لڑکی کی اجازت بنیادی شرط ہے۔ چونکہ نابالغہ لڑکی اذن دینے کی اہل نہیں ہوتی، اس لیے بالغ ہونے کے بعد اسے یہ شرعی حق حاصل ہے کہ وہ بچپن کا نکاح برقرار رکھے یا اسے مسترد کردے۔

جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: كَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»
(۱: متفق علیه، مشکوة، باب الولی، ج ۲، ص ۲۷۱)

یعنی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے مشورہ نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے۔ صحابہؓ نے پوچھا: اس کی اجازت کیا ہے؟ فرمایا: اس کا خاموش رہنا ہی اجازت ہے۔

اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ»
(۲: ابن ماجہ، دارقطنی، بیہقی، حاکم، عن ابی سعید مرفوعا، وقال الحاکم صحیح الاسناد، فتاویٰ نزیریہ، ج ۱، ص ۴۹۱)

یعنی: اسلام میں نقصان اٹھانا یا کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے۔

مزید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ «أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
(ابوداؤد، مشکوة، باب الولی فی النکاح، ج ۲، ص ۲۸۱)

یعنی: ایک کنواری لڑکی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرے والد نے میرا نکاح کردیا ہے، حالانکہ میں راضی نہیں تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکی کو اختیار دیا کہ چاہے وہ اس نکاح کو برقرار رکھے یا فسخ کر دے۔

ان احادیث سے واضح ہوا کہ:

◄ نکاح کے لیے لڑکی کی رضا مندی شرط ہے۔
◄ نابالغہ لڑکی اذن دینے کی اہل نہیں ہوتی۔
◄ بلوغت کے بعد لڑکی کو حق حاصل ہے کہ چاہے نکاح برقرار رکھے یا منسوخ کردے۔

لہٰذا، مسمات انور بی بی کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بچپن کے نکاح کو فسخ کردے۔ یہ اس کا جائز اور غیر چھیننے والا حق ہے۔ البتہ مجاز عدالت سے اس کی توثیق کرانا ضروری ہے۔

دوسری صورت: نکاح شغار

اگر اس نکاح کو "شغار نکاح” مانا جائے تو یہ نکاح شرعاً باطل ہے، کیونکہ مہر مساوی رکھا گیا تھا، جو حقیقت میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ” أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ، وَالشِّغَارُ: أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ، عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ ابْنَتَهُ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ "
(متفق علیه، و فی روایة مسلم: لا شغار فی الاسلام)

یعنی: رسول اللہ ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ نکاح شغار یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ دوسرا بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے، اور ان کے درمیان مہر نہ رکھا جائے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے: اسلام میں نکاح شغار نہیں۔

پس ان صحیح احادیث کی روشنی میں یہ نکاح باطل ہے اور شرعاً منعقد ہی نہیں ہوا۔ تاہم، مجاز عدالت سے اس فتویٰ کی توثیق لازمی ہے۔ مفتی کسی بھی قانونی پیچیدگی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے