ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ جلد 1، صفحہ 627
سوال
بولی کی کمیٹی کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے، ایک آدمی ستر ہزار کی پچیس ہزار میں بولی لگا کر اٹھا لیتا ہے، کیا ایسا طریقہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ صورت صاف طور پر سود اور قمار (جوا) کی شکل ہے۔ اس سے اجتناب کرنا ہر حال میں ضروری ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ نوٹ سونے کا بدل ہے۔ اسی لیے:
❀ اس کی بیع (خرید و فروخت) نقد کمی بیشی کے ساتھ ہو یا ادھار پر، ہر حال میں ممنوع ہے۔
❀ چاہے برابر کے برابر تبادلہ ہو یا کمی بیشی کے ساتھ۔
لہذا، بولی کی کمیٹی ناجائز ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب