بولی والی کمیٹی اور امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 667

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص خطبہ اور امامت کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور ساتھ ہی تجارت بھی کرتا ہے۔ اس بازار میں دکانداروں نے ایک کمیٹی بنائی ہے جسے بولی والی کمیٹی کہا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر مہینے اس کمیٹی کی رقم پر بولی لگتی ہے، اور حاصل ہونے والے منافع کو کمیٹی کے اراکین پر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

اس کمیٹی کے خزانچی کے پاس امام صاحب بھی رقم جمع کرواتے ہیں، لیکن وہ اس منافع کو غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں، اس لیے منافع نہیں لیتے۔ وہ صرف جتنی رقم جمع کرواتے ہیں اتنی ہی پوری رقم خزانچی سے وصول کرتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں اس امام کے پیچھے نمازِ جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

✿ بشرط صحت سوال اور بشرط صحت واقعہ، بولی والی کمیٹی کی مذکورہ صورت واضح طور پر سود کے حکم میں داخل ہے، جو کہ بالکل حرام، ناجائز اور "اکل بالباطل” کی ایک صورت ہے۔ اس سے بچنا اور اجتناب کرنا واجب ہے۔

✿ البتہ دوسری صورت یہ ہے کہ جب خزانچی کے پاس اپنی رقم صرف بطور امانت اور بچت کے جمع کروائی جائے اور بولی کی صورت میں حاصل ہونے والے منافع کو نہ لیا جائے، بلکہ اس کو حرام سمجھتے ہوئے صرف اپنی باری آنے پر اپنی ہی جمع شدہ رقم وصول کی جائے، تو یہ صورت جائز ہے۔

✿ جیسے سراسر سودی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں حفاظت کی نیت سے پیسہ رکھنا جائز ہے، اسی طرح یہ دوسری صورت بھی درست ہے۔

✿ لہٰذا ایسے امام کی اقتداء میں نمازِ جمعہ پڑھنا بالکل جائز اور درست ہے، کیونکہ اس نے تو صرف جائز بچت کی غرض سے کمیٹی میں شرکت کی ہے، نہ کہ حرام منافع لینے کے لیے۔

✿ مزید یہ کہ بولی کی صورت میں جو زائد رقم ملتی ہے اسے منافع کہنا بھی درست نہیں بلکہ وہ سراسر سود کی ایک شکل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے