سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص خطبہ اور امامت کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور ساتھ ہی تجارت بھی کرتا ہے۔ اس بازار میں دکانداروں نے ایک کمیٹی بنائی ہے جسے بولی والی کمیٹی کہا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر مہینے اس کمیٹی کی رقم پر بولی لگتی ہے، اور حاصل ہونے والے منافع کو کمیٹی کے اراکین پر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
اس کمیٹی کے خزانچی کے پاس امام صاحب بھی رقم جمع کرواتے ہیں، لیکن وہ اس منافع کو غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں، اس لیے منافع نہیں لیتے۔ وہ صرف جتنی رقم جمع کرواتے ہیں اتنی ہی پوری رقم خزانچی سے وصول کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں اس امام کے پیچھے نمازِ جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
✿ بشرط صحت سوال اور بشرط صحت واقعہ، بولی والی کمیٹی کی مذکورہ صورت واضح طور پر سود کے حکم میں داخل ہے، جو کہ بالکل حرام، ناجائز اور "اکل بالباطل” کی ایک صورت ہے۔ اس سے بچنا اور اجتناب کرنا واجب ہے۔
✿ البتہ دوسری صورت یہ ہے کہ جب خزانچی کے پاس اپنی رقم صرف بطور امانت اور بچت کے جمع کروائی جائے اور بولی کی صورت میں حاصل ہونے والے منافع کو نہ لیا جائے، بلکہ اس کو حرام سمجھتے ہوئے صرف اپنی باری آنے پر اپنی ہی جمع شدہ رقم وصول کی جائے، تو یہ صورت جائز ہے۔
✿ جیسے سراسر سودی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں حفاظت کی نیت سے پیسہ رکھنا جائز ہے، اسی طرح یہ دوسری صورت بھی درست ہے۔
✿ لہٰذا ایسے امام کی اقتداء میں نمازِ جمعہ پڑھنا بالکل جائز اور درست ہے، کیونکہ اس نے تو صرف جائز بچت کی غرض سے کمیٹی میں شرکت کی ہے، نہ کہ حرام منافع لینے کے لیے۔
✿ مزید یہ کہ بولی کی صورت میں جو زائد رقم ملتی ہے اسے منافع کہنا بھی درست نہیں بلکہ وہ سراسر سود کی ایک شکل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب