سوال
ایک آدمی کی تنخواہ یا آمدن 5000 روپے تک ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں صاحبِ نصاب نہیں ہوں کیونکہ میرے پاس ساڑھے سات تولہ زیور موجود نہیں ہے اور میں اپنی آمدن ہر ماہ خرچ کر دیتا ہوں۔ ایسے شخص پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے لیے زکوٰۃ کا نصاب شرط نہیں ہے۔ کتاب و سنت میں کوئی ایسی صراحت موجود نہیں ملتی جس میں قربانی کے لیے نصابِ زکوٰۃ کو شرط قرار دیا گیا ہو۔
رسول اللہ ﷺ کے دس سالہ طرزِ عمل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے ہر حالت میں، خواہ آسانی ہو یا تنگی، سفر ہو یا حضر، قربانی کا اہتمام فرمایا۔ جیسا کہ جامع الترمذی میں روایت ہے:
عن ابن عمر قال أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي
”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور قربانی ذبح کرتے رہے۔“ (جامع الترمذی)
قربانی کے لیے صاحبِ نصاب ہونا شرط نہیں
لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ قربانی کے لیے صاحب نصاب ہونا شرط نہیں ہے۔ اس شخص کا یہ بہانہ درست نہیں کہ وہ زیور نہ ہونے یا آمدنی خرچ کرنے کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں ہے۔
ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ توبہ کرے اور آئندہ خوش دلی کے ساتھ قربانی کرے۔ بصورتِ دیگر وہ سخت جرم کا مرتکب ہوگا، نافرمان بنے گا اور سنت چھوڑنے والا شمار ہوگا۔
نصاب کی وضاحت
یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ زکوٰۃ کے نصاب کے لیے ساڑھے سات تولہ سونا ہونا ضروری نہیں ہے۔
◈ اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت کے برابر نقد رقم یا سامانِ تجارت موجود ہو تو وہ بھی شرعاً صاحب نصاب کہلاتا ہے۔
خلاصہ
◈ اس شخص پر قربانی لازم ہے۔
◈ قربانی نہ کرنے کی صورت میں وہ سنتِ رسول ﷺ کو چھوڑنے والا شمار ہوگا۔
◈ اور مذہبِ حنفی کے مطابق، چونکہ حنفیہ قربانی کو واجب قرار دیتے ہیں، اس لیے وہ واجب ترک کرنے والا بھی شمار ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب