سوال
بعض لوگ صرف 12 ذوالحجہ تک قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک قربانی کے صرف تین دن ہیں، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح فیصلہ تحریر فرمائیں، جزاکم اللہ؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے وقت کے بارے میں امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح قربانی وہی ہے جو نماز عید کے بعد کی جائے۔ اگر نماز عید سے پہلے ذبح کی جائے تو وہ قربانی شمار نہیں ہو گی۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں واضح طور پر ذکر ہے۔
احادیث کی وضاحت
❀ حدیث انس رضی اللہ عنہ:
(عن انس عن النبي صلي الله عليه وسلم من ذبح قبل الصلوة فليعد۔الخ)
"حضرت انس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کی تو وہ دوبارہ قربانی کرے۔”
❀ حدیث جندب رضی اللہ عنہ:
(عن جندب بن سفيان قال شهدت النبي صلي الله عليه وسلم يوم النحر فقال من ذبح قبل الصلوة فليعد مكاتها اخري)
(صحيح بخاري: ص 834 ج 2)
"حضرت جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کرے، وہ دوبارہ قربانی کرے۔”
قربانی کے دنوں کے بارے میں اختلاف
اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں چار اقوال ذکر کیے ہیں:
چار اقوال
➊ پہلا قول: قربانی یوم نحر (10 ذوالحجہ) سے لے کر 13 ذوالحجہ تک جائز ہے۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے منقول ہے۔
➋ دوسرا قول: قربانی صرف 12 ذوالحجہ تک جائز ہے۔ یہ امام احمد، امام مالک، امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ اور بعض صحابہ (حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما) کا قول ہے۔
➌ تیسرا قول: قربانی صرف 10 ذوالحجہ کے دن ہے۔ یہ امام ابن سیرین کا قول ہے۔
➍ چوتھا قول: اہل امصار کے لئے صرف 10 ذوالحجہ کا دن ہے اور اہل منیٰ کے لئے 12 ذوالحجہ تک قربانی جائز ہے۔ یہ سعید بن جبیر اور جابر بن زید کا موقف ہے۔
پانچواں قول
امام ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک قربانی ذوالحجہ کے آخر تک جائز ہے، لیکن یہ قول ضعیف ہے کیونکہ اس کی تائید میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے، صرف ایک مرسل روایت پیش کی جاتی ہے، جو محدثین کے نزدیک حجت نہیں۔
کمزور اقوال کی تردید
❀ تیسرا قول (صرف 10 ذوالحجہ): یہ قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن میں
"ایام معلومات” کا ذکر ہے جو ایک سے زائد دنوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
❀ چوتھا قول (اہل منیٰ اور امصار کی تقسیم): اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔
❀ پانچواں قول (ذوالحجہ کے آخر تک): مرسل روایت پر مبنی ہونے کے باعث قابل قبول نہیں۔
دوسرے قول (12 ذوالحجہ تک قربانی) کے دلائل اور ان کا ضعف
حنفیہ و مالکیہ نے بعض آثار پیش کیے ہیں جیسے:
❀ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول کہ قربانی تین دن ہے، مگر سند ضعیف ہے۔
❀ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول، لیکن اس میں راوی مجہول ہیں۔
❀ ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول آثار، مگر ان کی اسناد ضعیف ہیں۔
حتیٰ کہ خود حنفی محقق حافظ ذیلعی نے بھی اس دعویٰ کو "غریب جدا” قرار دیا ہے۔
پہلا قول (13 ذوالحجہ تک قربانی) کے دلائل
یہ جمہور اہل علم کا مذہب ہے اور احادیث سے بھی ثابت ہے:
➊ حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ:
(عن جبير بن مطعم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم كل فجاج منيٰ منحر و كل ايام التشريق ذبح)
(موارد الظمان الي زوائد ابن حبان: ص 249)
"منیٰ کی ہر گلی منحر ہے اور پورے ایام تشریق میں قربانی جائز ہے۔”
حافظ ابن حجر، امام شوکانی اور دیگر محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
➋ دیگر علماء کی تائید:
حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم
امام حسن بصری، امام عطاء، امام اوزاعی، امام شافعی، امام ابن المنذر رحمہم اللہ
امام نووی رحمہ اللہ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا کہ قربانی 13 ذوالحجہ تک جائز ہے۔
➌ صحیح حدیث:
(ايام التشريق ايام اكل و شرب)
(تحفة الاحوذي: ص 63، ج 2)
"ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔”
یہ حدیث بھی ظاہر کرتی ہے کہ قربانی کے دن ایام تشریق کے اختتام تک رہتے ہیں۔
➍ قرآنی دلیل:
﴿وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـتٍ…﴿٢٨﴾… سورة الحج﴾
"ایام معلومات میں اللہ کا نام لیں (قربانی کے جانوروں پر)”۔ لفظ
"ایام” جمع ہے، جس سے متعدد دن مراد ہیں۔
خلاصہ فیصلہ
تمام دلائل کی روشنی میں راجح اور مضبوط قول یہی ہے کہ قربانی کے دن:
❀ 10 ذوالحجہ (یوم النحر)
❀ 11، 12 اور 13 ذوالحجہ (ایام تشریق)
یعنی قربانی 13 ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے تک جائز ہے۔ اس کے بعد قربانی کرنا درست نہیں۔
فیصلہ
لہٰذا قربانی 13 ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے تک جائز ہے اور یہ صحیح قربانی شمار ہو گی۔ اس میں کوئی بدعت نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔