کیا قربانی کے پیسے دوسرے علاقے بھیجنا جائز ہے؟ قرآنی و حدیثی دلائل
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 614

سوال

بعض جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے اخبارات میں یہ اعلان شائع ہو رہا ہے کہ قربانی کے جانور کے پیسے یہاں جمع کروائیں، اور ان کی طرف سے کشمیر میں قربانی کر کے گوشت وہاں کے اہل علاقہ، مہاجرین اور مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ کیا قرآن و سنت کی روشنی میں ایسا فعل جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال، یہ سمجھ لینا کہ قربانی محض گوشت کھانے اور کھلانے کا نام ہے اور اس مقصد کے لیے اگر کسی اور جگہ پیسے بھیج دیے جائیں تو قربانی ادا ہو گئی اور ثواب و فضیلت بھی مل گئی، درست نہیں ہے۔ قربانی صرف گوشت تقسیم کرنے کا عمل نہیں، بلکہ اس کے ساتھ وہ مخصوص سنن اور آداب بجا لانا ضروری ہیں جن کے بغیر قربانی، قربانی نہیں کہلاتی۔

قربانی کی اہم سنتیں اور آداب

قربانی کے دن اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(عن عَائِشَةُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إلَى اللَّهِ مِنْ إرَاقَةِ دَمٍ…)
(رواہ ابن ماجه والترمذي وقال هذا حديث حسن غريب)
یعنی قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل قربانی کا خون بہانا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ صرف پیسے بھیج دینے سے یہ فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی۔

عید گاہ میں قربانی کرنا بھی سنت ہے
حدیث میں ہے:
(عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْبَحُ وَيَنْحَرُ بِالْمُصَلَّى)
یعنی رسول اللہ ﷺ عیدگاہ میں قربانی ذبح کیا کرتے تھے۔ اگر قربانی دوسرے علاقے میں کی جائے تو یہ سنت بھی ترک ہو جائے گی۔

جانور کو کھلا پلا کر موٹا تازہ کرنا مستحب ہے
حضرت ابو امامہ بن سَهل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(كُنَّا نُسَمِّنُ الْأُضْحِيَّةَ بِالْمَدِينَةِ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُسَمِّنُونَ)
یعنی ہم مدینہ میں قربانی کے جانوروں کو فربہ کرتے تھے۔ لیکن قیمت بھیجنے کی صورت میں یہ سنت بھی فوت ہو جائے گی۔

قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے
(عَنْ أَنَسٍ قَالَ ضَحَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ … فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ)
رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے قربانی کی۔ اور یہ عمل تبھی ممکن ہے جب انسان اپنی قربانی خود کرے۔

جانور کو قبلہ رخ لٹانا سنت ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
(ذَبَحَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ… فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ : « إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ…)

دعائے توجیہہ پڑھنا سنت ہے
قربانی کے وقت یہ دعا پڑھنا ثابت ہے:
(إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا…)

قربانی کا گوشت خود کھانا، ذخیرہ کرنا اور صدقہ کرنا سنت ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
(كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا)

قرآن مجید کا حکم ذبح کرنا ہے، قیمت بھیجنا نہیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ﴾
(الحج: 28)
اسی طرح دیگر آیات
(الحج: 34، 36)
میں بھی یہی واضح کیا گیا ہے کہ قربانی جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے۔ صرف قیمت بھیجنے سے یہ احکام پورے نہیں ہوتے۔

نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی اس عمل کی کوئی مثال نہیں
عہد رسالت اور خلافت میں غربت اور فاقے زیادہ تھے، مگر اس کے باوجود نہ نبی ﷺ نے اور نہ خلفائے راشدین نے کبھی یہ عمل کیا کہ مدینہ کے مسلمانوں سے قربانی کی قیمت لے کر دوسرے علاقوں میں قربانی کرائی جائے۔

نتیجہ

◈ قربانی کی سنت اور اس کے آداب تقاضا کرتے ہیں کہ مسلمان اپنی قربانی اپنے علاقے میں ذبح کریں۔
◈ خود کھائیں، مستحقین میں تقسیم کریں، اور اگر استطاعت ہو تو دوسرے علاقوں کو کچھ حصہ بھیج دیں۔
◈ صرف قیمت بھیج دینا نہ قربانی ہے اور نہ ہی سنت ابراہیمی کی پیروی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے