مزین مساجد اور منقش جائے نماز پر نماز کا حکم
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : مساجد کو مزین کرنا کیسا ہے ؟ نیز ایسی مساجد میں اور منقش جائے جائے نماز پر پڑھی جانے والی نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب : مساجد کا اصل مقصد یہ ہے کہ ان میں اللہ کا ذکر، تلاوتِ قرآن اور نماز جیسی عبادات سرانجام دی جائیں اور یہی مساجد کی آبادی ہے۔ لیکن آج کل مساجد کی تعمیر میں نقش و نگار اور بیل بوٹوں پر زر کثیر صرف کیا جا رہا ہے، لیکن عبادات کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے۔ نمازیوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے اور مساجد و عبادت گاہوں کی گلکاری میں بہت زور دیا جا رہا ہے۔ یہ قیامت کی نشانی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰي يَتَبَاهَي النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ [ أبوداؤد، أبواب المساجد : باب فى بناء المساجد 449، نسائي 690، ابن ماجه 739، شرح السنة 350/2، ابن حبان 308، دارمي 268/1، ابويعلي 185/5، أحمد 134/3، 152، طبراني كبير 752، طبراني صغير 114/2 ]
”قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں فخر کرنے لگیں گے۔“
ابن خزیمہ، ابویعلی اور شرح السنہ میں یہ الفاظ ہیں :
يَأْتِيْ عَلٰي اُمَّتِيْ زَمَانٌ يَتَبَاهَوْنَ بِالْمَسَاجِدِ ثُمَّ لَا يَعْمُرُوْنَهَا اِلَّا قَلِيْلًا
”میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ مسجدوں پر فخر کریں گے، انہیں بہت تھوڑا آباد کریں گے۔“
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتِ الْيَهُوْدُ وَالنَّصَارٰي [سبل السلام 347/1، فتح العلام 214/1]
”تم مساجد کو ضرور یہود و نصاریٰ کی طرح منقش کرو گے۔ “
اور آج کل بالکل یہی کیفیت ہے کہ مساجد کو اس قدر منقش کر دیا گیا ہے کہ نمازی کا خشوع و خضوع متاثر ہوتا ہے اور اللہ کی طرف توجہ میں خلل اندازی ہوتی ہے۔ مناسب ہے کہ مساجد کی دیواریں، محراب اور جائے نماز سادہ ہوں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار پر لٹکے ہوئے پردے کو صرف اس لیے اتروا دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے توجہ ہٹاتا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كَانَ قِرَامٌ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا سَتَرَتْ بِهِ جَانِبَ بَيْتِهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمِيطِي عَنَّا قِرَامَكِ هَذَا فَإِنَّهُ لَا تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ فِي صَلَاتِي [صحيح بخاري، كتاب الصلاة : بَابُ إِنْ صَلَّى فِي ثَوْبٍ مُصَلَّبٍ أَوْ تَصَاوِيرَ هَلْ تَفْسُدُ صَلاَتُهُ وَمَا يُنْهَى عَنْ ذَلِكَ: 374، احمد 283، 151/3 ]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پردہ تھا جو انہوں نے اپنے گھر کی دیوار پر لٹکایا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ پردہ ہم سے دور کر دو (یعنی دیوار سے اتار دو) اس کی تصویریں نماز میں میرے سامنے پھرتی رہتی ہیں۔ “
علامہ محمد بن اسماعیل امیر یمنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فِي الْحَدِيْثِ دَلَالَةٌ عَلٰي اِزَالَةِ مَا يُشَوِّشُ عَلَي الْمُصَلِّيْ صَلَاتَهُ مِمَّا فِيْ مَنْزِلِهِ اَوْ فِيْ مَحَلِّ صَلَاتِهِ [ سبل السلام 437/1، فتح العلام 214/1 ]
”اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو چیز نمازی کی نماز میں تشویش کا باعث ہو اسے زائل کر دینا چاہیے۔ وہ چیز اس کے گھر میں ہو یا نماز پڑھنے والی جگہ میں۔ “
نواب صدیق الحسن خاں رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح کی عبارت منقول ہے۔ [ مسك الختام 339/1 ]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَنَظَرَ إِلَى أَعْلَامِهَا نَظْرَةً، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ : ” اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَائْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّةِ أَبِي جَهْمٍ فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا عَنْ صَلَاتِي "، وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ : عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كُنْتُ أَنْظُرُ إِلَى عَلَمِهَا وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ فَأَخَافُ أَنْ تَفْتِنَنِي [بخاري، كتاب الصلاة : باب إذا صلى فى ثوب له أعلام ونظر إلى علمها 373، مسلم 556 ]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونی چادر میں نماز پڑھی جس میں دھاریاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظر ان دھاریوں کی طرف دیکھا۔ جب نماز سے سلام پھیرا تو فرمایا : ”میری یہ اونی چادر ابوجہم کو واپس کر دو اور کڑھائی کے بغیر لے کر آؤ۔ اس کڑھائی والی چادر نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کر دیا۔ “
دوسری روایت میں ہے : ”میں نماز میں اس کی طرف دیکھنے لگا تو مجھے ڈر لاحق ہوا کہ یہ مجھے فتنہ میں ڈال دے گی۔ “
اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَفِيهِ الْحَثُّ عَلٰي حُضُوْرِ الْقَلْبِ فِي الصَّلَاةِ وَتَدَبُّرِ مَا ذَكَرْنَاهَا وَمَنْعِ النَّظْرِ مِنَ الْاِمْتِدَادِ اِلٰي مَا يُشْغِلُ وَاِزَالَةُ مَا يُخَافُ اِشْتِغَالُ الْقَلْبِ بِهِ وَ كَرَاهِيَةُ تَزْوِيْقِ مِحْرَابِ الْمَسْجِدِ وَ حَائِطِهِ وَنَقْشِهِ وَغَيْرِ ذَالِكَ مِنَ الشَّاغِلَاتِ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ الْعِلَّةَ فِيْ اِزَالَةِ الْخَمِيْصَةِ هٰذَا الْمَعْنٰي [ شرح مسلم 38/5 ]
”اس حدیث میں نماز کے اندر حضورِ قلب اور ذکر و تلاوت اور مقاصدِ نماز پر تدبر کرنے میں رغبت دلائی گئی ہے اور جو چیز نماز سے بے خبر کرتی ہے اس کی طرف نظر ڈالنے کی ممانعت، جو چیز نماز سے بے خبر کرتی ہے اس کا ازالہ، مسجد کے محراب اور اس کی دیواروں کو منقش کرنا اور اس جیسی دیگر بے خبر کرنے والی اشیاء کی کراہت ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھاری دار چادر کو ہٹا دینے کی یہی علت ذکر کی ہے۔ “
ان صحیح احادیث اور شارحینِ حدیث کی تشریحات سے معلوم ہوا کہ مساجد کے در و دیوار اور محراب کو منقش کرنا، شیشے وغیرہ سے مزین کرنا، بیل بوٹے والے جائے نماز اور ان جیسی دیگر اشیاء کا استعمال مکروہ ہے جو نماز سے نمازی کی توجہ ہٹاتی ہیں اور خشوع و خضوع اور تذلل و عاجزی میں کمی کرتی ہیں۔ تاہم اس سے نماز فاسد نہیں ہو گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز دوبارہ ادا نہیں فرمائی اور نہ نماز کو توڑا ہی ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز تو ہو گئی مگر توجہ بٹ گئی۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ شیشے اور بیل بوٹے والی جائے نماز یا منقش محراب نہ بنایا جائے۔ کیونکہ یہ اشیاء نماز سے توجہ ہٹاتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے