سوال:
کیا نماز عشاء کے فرائض سے پہلے چار رکعات مسنون ہیں؟
جواب:
نماز عشاء سے پہلے چار رکعات کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتا، انہیں سنت قرار دینا بے دلیل ہے۔
❀ علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ (1397ھ) لکھتے ہیں:
”علامہ انور شاہ کاشمیری کی ذکر کردہ عبارت کہ عشاء سے پہلے اور بعد میں چار رکعتیں پڑھنی چاہییں، سے استدلال کیا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ شاید حافظ قاسم بن قطلو بغا نے اپنی کتاب الاختیار میں عشاء سے پہلے چار رکعت کے ثبوت میں کوئی حدیث پیش کی ہوگی۔ چنانچہ میں نے محدث شیخ ابوالوفا افغانی رئیس دائرہ احیاء المعارف نعمانیہ حیدرآباد دکن کو خط لکھا۔ ان کے پاس الاختیار کے مخطوطہ کی فوٹو کاپی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس مقام کو دیکھیں، انہوں نے مراجعت کے بعد کہا: ہم نے کتاب میں اس مقام کو بیاض (خالی) پایا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ حافظ قاسم بن قطلو بغا، جیسے متبحر اور ماہر عالم اس مسئلہ میں کوئی حدیث نہیں جان سکے۔ یہ وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے حافظ جمال زیلعی کی تالیف ’تخریج احادیث الہدایتہ‘ پر بطور استدراک ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام انہوں نے منية الألمعي فيما فات من تخريج أحاديث الهداية للزيلعي رکھا۔ اس (علمی مقام) کے باوجود وہ اس مسئلہ پر کسی حدیث سے آگاہی حاصل نہیں کر سکے۔ دوسری طرف احناف کی کتابیں عشاء سے پہلے چار رکعات مسنون قرار دینے پر متفق ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ احناف کی دلیل ہمارے ائمہ کرام کی کتب مخطوطہ یا ضائع شدہ کتابوں میں ہو۔ واللہ اعلم۔“
(معارف السنن: 115/4، 116)
مولانا مرحوم کو چاہیے تھا کہ ایک مسئلہ میں اگر حدیث رسول اور آثار صحابہ نہیں ملے، تو کہہ دیتے کہ عشاء سے پہلے چار رکعات کو مسنون کہنا بے دلیل ہے۔ اس کے برعکس یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ہمارا دین ضائع ہو گیا۔
کل کوئی رافضی کہہ دے کہ ہمارے مذہب کی دلیل بھی کسی مخطوط یا ضائع شدہ کتاب میں ہوگی، تو کیا اس بنا پر اسے بھی حق تسلیم کیا جائے گا؟