فرض کے بعد سنتیں اسی جگہ یا جگہ بدل کر پڑھنے کا حکم
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

فرض ادا کرنے کے بعد سنتوں کے لیے جگہ تبدیل کرنی چاہیے یا اسی جگہ بھی سنتیں ادا کر سکتے ہیں؟

جواب:

جہاں فرض ادا کیے ہیں، اسی جگہ سنتیں ادا کی جا سکتی ہیں، جگہ بدل لیں، تو بھی درست ہے۔

جگہ تبدیل کرنے کے دلائل:

① سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا بذلك؛ أن لا توصل صلاة بصلاة حتى نتكلم أو نخرج.
”جب تک کلام نہ کر لو یا جگہ نہ بدل لو، ایک نماز کے بعد دوسری نماز نہ پڑھو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا۔“
(صحيح مسلم: 883)
② سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے:
يتقدم أو يتأخر.
”سنتیں پڑھنے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹ جاتے یا آگے بڑھ جاتے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 207/2، وسنده صحيح)
③ امام شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يتطوع حتى ينهز خطوة أو خطوتين.
”تب تک سنتیں ادا نہ کرے، جب تک ایک دو قدم آگے پیچھے نہ ہو جائے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 208/2، وسنده صحيح)
④ ہشام بن عروہ بن زبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان أبى إذا صلى المكتوبة؛ نكب عن مكانه، فسبح.
”میرے والد گرامی جب فرض نماز پڑھ لیتے، تو اس جگہ سے تھوڑا ہٹ کر سنتیں ادا کرتے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 208/2، وسنده صحيح)

فرض نماز والی جگہ پر سنتیں ادا کرنے کے دلائل:

① نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان ابن عمر يصلي فى مكانه الذى صلى فيه الفريضة.
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سنتیں اسی جگہ ادا کرتے، جہاں فرض پڑھتے تھے۔“
(صحيح البخاري: 848)
② عبیداللہ بن عمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
رأيت القاسم وسالما يصليان الفريضة، ثم يتطوعان فى مكانهما.
”میں نے قاسم رحمہ اللہ اور سالم رحمہ اللہ کو دیکھا، انہوں نے فرض ادا کی، پھر اسی جگہ سنتیں پڑھ لیں۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 208/2، وسنده صحيح)
③ مطر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو فرض والی جگہ پر ہی سنتیں پڑھ لیتا ہے، تو فرمایا:
لا بأس به.
”کوئی حرج نہیں۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 208/2، وسنده صحيح)
❀ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
إنه كان يكره للإمام أن يتطوع فى مكانه الذى صلى فيه الفريضة.
”فرض والی جگہ پر امام کا سنتیں ادا کرنا انہیں پسند نہیں تھا۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 208/2، وسنده صحيح)
بے دلیل بات ہے، کراہت دلیل شرعی ہی سے ثابت ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ اس بارے میں تمام مرفوع احادیث ضعیف اور غیر ثابت ہیں۔ سلف کے عمل سے ثابت ہوا کہ دونوں صورتیں جائز ہیں، فرض نماز والی جگہ پر بھی سنتیں ادا کی جا سکتی ہیں اور اس جگہ سے ہٹ کر بھی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے