سوال:
فرائض سے پہلے اور بعد والی سنن راتبہ کی مشروعیت میں کیا حکمت ہے؟
جواب:
سنن راتبہ میں حکمت یہ ہے کہ یہ فرائض کی بجا طور پر ادائیگی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ انہیں مسلسل چھوڑنے والا ایک نہ ایک دن فرائض کا تارک بن جاتا ہے۔ گویا یہ فرائض کی ادائیگی کے لیے مضبوط سہارا ہیں۔
❀ علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (702ھ) فرماتے ہیں:
”فرائض سے پہلے اور بعد میں سنتیں ادا کرنے میں نہایت عمدہ حکمت پنہاں ہے۔ پہلے والی سنتوں میں حکمت یہ ہے کہ چونکہ انسان دنیوی امور میں مشغول ہوتا ہے، جس سے دل میں ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، جو عبادت میں حضور قلبی اور خشوع و خضوع سے دوری پیدا کر دیتی ہے، جبکہ یہی تو عبادت کی روح ہے، تو جب فرض سے پہلے سنتیں ادا کی جائیں، تو دل عبادت سے مانوس ہو جاتا ہے اور دل میں ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، جو خشوع و خضوع کے قریب کر دیتی ہے، تو جب انسان فرض نماز میں داخل ہوتا ہے، اس وقت اسے (خشوع سے لبریز) ایسی عمدہ دلی کیفیت حاصل ہوتی ہے، جو اگر وہ بغیر سنتیں ادا کر کے داخل ہوتا، تو حاصل نہ ہوتی۔ کیونکہ یہ کیفیت دل کی فطرت میں شامل ہے، خصوصاً جب یہ کیفیت زیادہ ہو اور لمبے وقت کے لیے ہو۔ جب دل میں (خشوع والی) یہ حالت پیدا ہوتی ہے، تو وہ (دنیوی امور میں مشغول ہونے سے پیدا ہونے والی) پہلی حالت کو یا مکمل طور پر ختم کر دیتی ہے، یا کمزور کر دیتی ہے۔ فرائض کے بعد والی سنتوں میں حکمت یہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ نوافل سے فرائض کی کمی کو پورا کیا جائے گا، لہذا جب فرض ادا کیا جا رہا ہے، تو مناسب ہے کہ اس کے بعد کوئی ایسا عمل کیا جائے، جس سے فرض کی کمی پوری ہو سکے۔“
(إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام: 199/1)
❀ صاحب ہدایہ، علامہ علی بن ابی بکر مرغینانی رحمہ اللہ (593ھ)لکھتے ہیں:
”بہتر یہی ہے کہ نمازی سنن راتبہ کو کسی بھی حال میں نہ چھوڑے، کیونکہ یہ فرائض کی کمی کو پورا کرنے والی ہیں۔“
(الهداية: 161/1)
❀ علامہ حصکفی حنفی رحمہ اللہ (1088ھ) لکھتے ہیں:
شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان.
”فرائض کے بعد والی سنتوں کو اس لیے مشروع کیا گیا ہے، تا کہ ان کے ذریعے فرائض کی کمی کو پورا کیا جائے اور پہلے والی سنتیں اس لیے مشروع ہیں، تا کہ شیطان کے وسوسوں کو ختم کیا جائے۔“
(الدر المختار، ص 90)