فجر کی جماعت کھڑی ہے، تو کیا فجر کی سنتیں الگ ہو کر ادا کر سکتے ہیں؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

فجر کی جماعت کھڑی ہے، تو کیا فجر کی سنتیں الگ ہو کر ادا کر سکتے ہیں؟

جواب:

فرض کی اقامت شروع ہو جانے کے بعد سنتیں اور نوافل پڑھنا جائز نہیں، صف میں ادا کیے جائیں یا صف سے پیچھے، خواہ ادائیگی کے بعد کلام کریں یا نہ کریں۔
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقيمت الصلاة، فلا صلاة إلا المكتوبة.
”فرض نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو کوئی نفل نماز نہیں ہوتی۔“
(مسند الإمام أحمد: 331/2؛ صحيح مسلم: 710)
یہ حدیث مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح بیان ہوئی ہے، اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان بھی ثابت ہے اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی اور یہ اصول ہے کہ موقوف مرفوع کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اس مرفوع حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی سنتیں ہوں یا کوئی اور نماز، فرض کی اقامت کے بعد پڑھنا ممنوع ہے۔
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
في هذا بيان أنه ممنوع من ركعتي الفجر ومن غيرها من الصلوات، إلا المكتوبة.
”یہ حدیث دلیل ہے کہ (اقامت کے بعد) فجر کی دو رکعت اور دوسری کوئی بھی نماز ممنوع ہے سوائے فرض کے۔“
(معالم السنن: 274/1)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں:
”اقامت کے بعد نفل کی ممانعت اس لیے ہے کہ اب وقت فرض نماز کا ہے اور جائز نہیں کہ کامل کی موجودگی میں ناقص میں مشغول ہوا جائے۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ جو شخص مسجد سے باہر ہو اور اسے خدشہ نہ ہو کہ دوسری رکعت کا رکوع بھی رہ جائے گا، وہ دو رکعت ادا کر کے نماز میں داخل ہو۔ حالانکہ یہ حدیث اس کی تردید کرتی ہے۔“
(كشف المشكل من حديث الصحيحين: 1022/1)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) لکھتے ہیں:
”اس حدیث میں فرض کی اقامت کے بعد نفل کی واضح ممانعت ہے، خواہ وہ نفل سنن راتبہ ہوں، جیسے صبح، ظہر اور عصر کی سنتیں یا کوئی اور نفل نماز۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔“
(شرح مسلم: 247/1)
❀ حافظ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
”صحیح اور صریح سنت ہے کہ فرض کی اقامت کے بعد نفل ناجائز ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ احناف نے اس سنت کی تردید کی ہے۔“
(إعلام الموقعين: 375/2)
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقيمت الصلاة، فلا صلاة إلا التى أقيمت.
”نماز کی اقامت جب کہہ دی جائے، تو صرف وہی نماز پڑھی جا سکتی ہے، جس کی اقامت کہہ دی گئی ہے۔“
(الأوسط للطبراني: 8654، شرح معاني الآثار للطحاوي: 371/1، وسنده حسن)
❀ سیدنا عبد اللہ بن مالک بن بحسینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی اقامت کے بعد فجر کی سنتیں پڑھ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہوئے، تو لوگوں نے اسے گھیر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کی چار رکعت ہیں، فجر کی چار رکعت ہیں؟“
(صحيح البخاري: 663؛ صحيح مسلم: 711)
❀ صحیح مسلم میں ہے :
”صبح کی نماز کھڑی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اقامت کے دوران نماز پڑھ رہا تھا۔ فرمایا: آپ صبح کی (فرض نماز) چار رکعتیں ادا کر رہے ہیں؟“
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ کیا آپ صبح کی چار رکعت پڑھنا چاہتے ہیں، اور اس آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ان دونوں میں سے آپ کی (فجر کی فرض) نماز کون سی ہے؟ نیز سیدنا بحسینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا آپ فجر کی دو رکعتوں کو چار پڑھنا چاہتے ہیں؟ یہ سب باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کام پر انکار ہے۔ کسی کے لیے جائز نہیں کہ فرض کی اقامت کے بعد مسجد میں فجر کی دو رکعتیں یا نفل ادا کرے۔“
(التمهيد: 68/22-69)
❀ مشہور فقیہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ (656ھ) فرماتے ہیں:
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا آپ صبح کی (فرض) نماز چار رکعت ادا کر رہے ہیں؟ اس کام کرنے والے پر انکار ہے اور انکار میں اس کی تردید ہے، جو امام کے نماز پڑھاتے ہوئے فجر کی سنتیں ادا کرنا جائز قرار دیتا ہے۔“
(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم: 350/2)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) الصبح أربعا کے الفاظ کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں:
”فرمانِ نبوی کہ کیا آپ صبح کی (فرض) نماز چار رکعت ادا کرتے ہیں؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ صبح کی نماز کی اقامت کے بعد صرف فرض نماز ہی ادا کی جا سکتی ہے۔ جب آدمی اقامت کے بعد دو رکعت نفل ادا کرے گا پھر نمازیوں کے ساتھ فرض پڑھے گا، تو گویا صبح کی چار رکعت ادا کر رہا ہے کیونکہ اس نے اقامت کے بعد چار رکعت ادا کی ہیں۔“
(شرح مسلم: 247/1)
❀ علامہ عینی رحمہ اللہ (855ھ) لکھتے ہیں:
”یہ فرمان نبوی کہ کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھ رہے ہو؟ اس شخص پر انکار تھا جو اقامت ہو جانے کے بعد سنتیں ادا کر رہا تھا۔ جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد جب اس طرح کرے کہ پہلے دو سنتیں پڑھے، پھر امام کے ساتھ شامل ہو تو گویا اس نے چار فرض پڑھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نماز سوائے فرض نماز کے نہیں ہوتی۔“
(عمده القاري: 181/5)
❀ سیدنا عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز فجر ادا کر رہے تھے۔ اس نے مسجد کے کونے میں فجر کی دو سنتیں پڑھیں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، تو فرمایا: اے فلاں! ان دو نمازوں میں سے کون سی نماز آپ نے شمار کی ہے؟ وہ نماز جو اکیلے پڑھی ہے یا وہ جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے؟“
(صحيح مسلم: 712)
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
”یہ حدیث دلیل ہے کہ امام جب فرض پڑھا رہا تو سنتوں میں مشغول نہ ہوں، بلکہ انہیں چھوڑ دیں اور نماز مکمل ہونے کے بعد ادا کریں۔“
(معالم السنن: 274/1)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) لکھتے ہیں:
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ فرض کی اقامت کے بعد نفل نہیں پڑھے جا سکتے، اگرچہ نفل کے بعد جماعت میں شامل ہو سکتا ہو۔ جو یہ کہتا ہے کہ اگر یقین ہو کہ پہلی یا دوسری رکعت میں شامل ہو جائے گا، تو نفل پڑھ سکتا ہے، اس حدیث میں اس کا بھی رد ہے۔“
(شرح مسلم: 247/1)
یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ فجر کی سنتیں تکبیر کے بعد پڑھنا جائز نہیں، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر معترض نہ ہوتے۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا، وہ نماز فجر کی اقامت کے بعد فجر کی سنتیں ادا کر رہا تھا۔ فرمایا: آپ صبح کی چار رکعت ادا کر رہے ہیں؟“
(مسند البزار: 3260، وسنده صحيح)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
”میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مؤذن اقامت کہنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھینچا اور فرمایا: صبح کی نماز چار رکعت ادا کرنا چاہتے ہیں؟“
(مسند الطيالسي: 2859، السنن الكبرى للبيهقي: 482/2، وسنده حسن)
اسے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1124) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (2469) نے صحیح کہا ہے۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
”صبح کی نماز کھڑی ہو گئی، تو ایک آدمی سنتیں ادا کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑوں سے اسے کھینچا اور فرمایا: صبح کے چار فرض ادا کر رہے ہیں؟“
(مسند الإمام أحمد: 238/1، وسنده حسن)
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”نماز کھڑی ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو نفل ادا کرتے دیکھا تو فرمایا: دو نمازیں جمع کر رہے ہیں آپ؟“
(التاريخ الصغير للبخاري: 2300، وسنده حسن)
❀ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذه نصوص منقولة نقل التواتر، لا يحل لأحد خلافها.
”یہ نصوص متواتر ہیں، کسی کے لیے ان کے خلاف عمل کرنا جائز نہیں۔“
(المحلى: 108/3، مسئلة: 308)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے