سوال
قربانی حجاج کرام سے تشبیہ ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ ﷺ سے قربانی کے قولی اور عملی ثبوت پیش کرنے کی بحث یہیں ختم نہیں ہوتی کہ محض ایک شرعی ضابطہ سامنے آ جائے اور مومن سمعنا و اطعنا کہہ دے۔ بلکہ قربانی کے حکم کے پس منظر کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قربانی صرف حجاج کرام ہی کے لیے خاص نہ تھی، بلکہ امت مسلمہ کے تمام افراد کو اس عظیم عمل میں شریک ہونا چاہیے تھا، تاکہ ہر شخص اسلام کامل کی علامت رکھنے والے اس عمل سے بہرہ مند ہو سکے۔
✿ اگر قربانی ہی وہ عمل ہے جس سے ملتِ ابراہیمی کی اصل کیفیت نمایاں ہوتی ہے اور جس کے کرنے پر ہی ملت ابراہیم کو "اسلام” کا نام ملا،
✿ تو یہ عمل امت کے تمام افراد میں اس کی حقیقی روح کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری تھا۔
✿ عقل اور فطرت کا بھی یہی تقاضا تھا کہ جذبۂ ابراہیمی کا کوئی مستقل نشان ملتِ ابراہیمی میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھا جائے۔
اسی لیے یہ عمل صرف حجاج تک محدود نہیں کیا گیا۔ کیونکہ حجاج کی تعداد تو بہت کم ہے جبکہ امت مسلمہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔
حجاج کی سعادتیں اور غیر حجاج کی کیفیت
حجاج کرام کو یہ عظیم سعادتیں نصیب ہوتی ہیں کہ وہ:
✿ لبیک کہتے ہوئے اللہ کے دربارِ اقدس تک پہنچتے ہیں،
✿ خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں،
✿ حجرِ اسود کو چوم کر چشم تصور میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہیں،
✿ ملتزم سے لپٹ کر گڑگڑاتے اور روتے ہیں،
✿ صفا و مروہ کی سعی میں ابراہیم علیہ السلام کی یاد تازہ کرتے ہیں،
✿ عرفات کے میدان میں گریہ و زاری کرتے ہیں،
✿ اور منیٰ میں قربانی دے کر جذبۂ فدائیت کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ تو حجاج کے حصے میں آتا ہے۔
لیکن جو لوگ حج کے لیے حاضر نہیں ہو سکتے، وہ بھی دل سے یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمیں بھی ان سعادتوں میں سے کچھ حصہ ملنا چاہیے۔ امت مسلمہ کی یہی پکار تھی کہ اسلام کی حقیقی روح ہر جگہ زندہ رہنی چاہیے۔
غیر حاجیوں کے لیے قربانی کی حکمت
اسی آوازِ فطرت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے یہ انتظام فرمایا کہ:
✿ قربانی کا عمل حج سے باہر بھی جاری رکھا گیا۔
✿ اس طرح امت کے تمام صاحب استطاعت افراد کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر سنتِ ابراہیمی کو تازہ کریں۔
✿ یہ قربانی ہر سال ابراہیمی جذبہ کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے جو اسلام کی اصل روح اور جان ہے۔
غیر حاجیوں کے لیے دیگر نعمتیں
✿ جنہیں قربانی کی بھی توفیق نہ ہو سکے، ان کے لیے نماز عید کو اجتماعِ عرفات کا متبادل قرار دیا گیا۔
✿ اور جو نہ قربانی کر سکیں اور نہ ہی عید کی نماز میں شریک ہو سکیں، انہیں محروم نہیں رکھا گیا بلکہ ایک تیسری سہولت دی گئی:
◈ 9 ذوالحجہ سے 13 ذوالحجہ تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات بلند کرنا:
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
اختتامی کلمات
پس، اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اس نبی ﷺ پر جن کی بدولت پوری امت مسلمہ کو اپنے امام و پیشوا ابراہیم علیہ السلام کی سنت نصیب ہوئی۔
بہ مصطفیٰ ﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولیبی ست
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب